مغربیت کا بڑھتا ہوا زور* :از قلم : محمد انورچیخ و پکار سے پورا عرب دہل رہا تھاـ معصوم بچیاں آہ و بکا کر رہی تھیں ـ کبھی ان کو دفنایا جاتا اور کبھی بازار میں کوڑیوں کے بھاؤ عزتیں نیلام کی جاتیں ـ گھر میں ماں کی عزت ایک بازارو عورت سے زیادہ نہ تھی ـ الغرض عورت کو ایک خرید و فروخت کی چیز سمجھا جاتا تھاـ مظلوم بیٹی کی آہ نے عرش ہلا دیا، پھر قدرت الہی کو جوش آیا، اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے، آپ کے مبعوث ہونے سے یہ اندھیر نگری کا خاتمہ ہواـ عورت کو یاقوتی نگینوں کا درجہ حاصل ہواـ لیکن افسوس دل خون کے آنسوؤں سے رنگین ہوتا ہے ، جب میں موجودہ معاشرے کی اطراف پر نظر دوڑاتا ہوں، ائیر پورٹ، شوپنگ مال، جہازوں، بسّوں، فیکٹریوں اور بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین کو دیکھتا ہوں ، تو مجھے چھوٹے چھوٹے کپڑوں میں ملبوس اس قوم کی مائیں بہنیں نظر آتی ہیں ـ اپنے بزرگوں سے سنتے تھے، یہ قوم مغربیت کی تہذیب اپنانے میں لگی ہوئی ہے ـ ان کی اس بات پر تعجب ہوتا تھا، کیونکہ وہ حیوان بیٹی کی عزت بھی ہنسی خوشی نیلام کر دیتے ہیں ـ سوشل میڈیا پر مشہور ہونے والے واقعے نے ہر باحیا مسلمان کے ہوش اڑائے ہوئے ہیں، یہ سوچ کر دل کانپ رہا ہے ، ان ماں باپ کی راتیں کیسے کٹتیں ہونگی، جن کی عزتیں انسانی حقوق کا درس دینے والے مغربی تعلیم پسند شریروں نے تار تار کر دی ہیں، ان والدین کا کیا قصور تھا؟ انہیں کیا معلوم کہ انہوں نے اپنی بیٹوں کو تہذیب وتمدن کی چادر سے ڈھانپی ہوئی حیوانیت کی چکی میں پسنے کے لئے چھوڑ دیا ، اسلامک یونیورسٹی بہاولپور میں چیف سیکورٹی کے موبائل سے برآمد ہونے والی 5500 لڑکیوں کی ننگی، اور جنسی فحش ویڈیوز والے سانحہ نے پوری قوم کی عزت کو لکارا ہے ـ تمام بڑی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کو یہ ایک زبردست طمانچہ ہے، کہ ان کے گھٹیا نظام تعلیم کی وجہ سے ہماری بیٹیوں کو اچھے نمبرز حاصل کرنے کے لئے جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے، تف ہے ایسی جدیدیت کی تعلیم پر جس میں ہماری بیٹیوں کی عزتیں ہی محفوظ نہیں ۔ اس وقعہ کے مکمل سچ ہونے پر تعداد کے حوالہ سے معتبر شواہد بھی موجود نہیں ـ یہ بھی ممکن ہے، اس کے پیچھے اسلامیہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کا آپسی جھگڑا ہو، اور ایک دوسرے کو بدنام کرنے کی غرض سے یہ سیاست چلی گئی ہو ـلیکن یہ بات تو اٹل ہے، کہ یونیورسٹیز میں ایسے واقعات پیش آتے ہیں ـ ان کی مینجمنٹ نے انہیں ایسا کرنے کے لیے بہت آسانیاں جو عنایت کی ہیں ـ یہ بات میری سمجھ میں تب آئی تھی ، جب مجھے بی ایس کرنے کا بخار بڑی زور سے چڑھا ہوا تھا ـ گوجرہ کالج میں داخلہ کے لیے گئے، اور کچھ دوستوں کو ہمراہ لے لیا، داخلہ کے لیے پروفیسروں سے ملاقات کی ـ یہ ڈگری حاصل کرنا میرے لیے مشکل ثابت ہو رہا تھا، روز مدرسہ سے رخصت حاصل کر کے گوجرہ جانا خاصا مشکل تھا ـ دوستوں سے رائے طلب کی، ان کی بات سن کر ہکا بکا رہ گیا، کہنے لگے بھائی کوئی بڑی بات نہیں، آپ ایسا کرو چند پروفیسرز سے اچھے تعلقات قائم کرو، پھر چاہے پورا سمیسٹر کالج نہ آو، آپ کو پورے نمبرز مل جائیں گے، ہر کتاب پڑھانے والے پروفیسر نے ہی نمبرنگ کرنی ہوتی ہے ـ ایسا اگر نظام ہوگا، تو حیوانوں کے لیے سرِ بازار عزتوں کے پر خچے اڑانا کوئی مشکل بات نہ ہوگی ـمیں سوچ رہا ہوں ، کسی مدرسہ میں چھوٹا سا معاملہ پیش آنے پر پورے پاکستان کے علماء کو جلاد ودجال کا لقب دینے والے قارون و ہامان کے باشندے آج کہاں غفلت کی نیند سو رہے ہیں، اگر اس دلالی سے ہمیں بچنا ہے، تو یونیورسٹیوں میں مدارس کا نظام تعلیم لانا ہوگاـ جسے آج کل شدت پسند لوگ حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں ـ افسوس کہ آج مغربیت پسند لوگوں نے شرم و حیا کے فطری تقاضوں کو مکمل طور پر بند کر کے عیاشی کو اپنا مقصود اول بنا لیا ہے، اپنے دل کی تسکین کے لیے عورت کو بطور اٰلہ استعمال کیا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے، اس سانحہ سے ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی، ہمارا الیکٹرانک میڈیا اس معاملہ پر مکمل سکوت اختیار کیے ہوئے ہے، یہ معاملہ صرف چیف سیکیورٹی کو گرفتار کرنے سے حل نہیں ہوگا، بلکہ اس کام میں ملوث پورے ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے ہر کردار کو عبرت کا نشان بنانا ہوگا، نہیں تو قوم کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر تعلیم کی آڑ میں یہ جسم فروش دلالی کا دروازہ کبھی بند نہ ہوگا۔

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل