دینی مدارس کے خود کفالتی نظام کی اہمیت کو واضح کرتا آرٹیکل
بلقان (balkans )جنوب مشرقی یورپ کے خطے کانام ہے۔اس کا کل رقبہ 5 لاکھ 50 ہزار مربع کلومیٹر ہے ۔گوگل سرچ کے مطابق اس کی آبادی 55 ملین ہے ۔اس کا یہ نام کوہ بلقان نامی پہاڑ کی وجہ سے رکھا گیا ہے ۔جس کا سلسلہ بلغاریہ کے درمیان سے شروع ہو کر مشرقی سربیا تک جاتا ہے ۔
اس کے تین اطراف میں سمندر ہے مشرق میں بحیرہ اسود اور جنوب مغرب میں بحیرہ روم کی شاخیں بحیرہ ایڈریاٹک، بحیرہ آیونین ہیں ۔جنوب مشرق میں بحیرہ ایجین، ایڈریاٹک اور اسود کے ساحلوں سے شروع ہو کر وسطی یورپ تک اس کا علاقہ پھیلا ہوا ہے ۔
بلقان ۔۔۔۔البانیہ، بوسنیا، وہرزیگونیا، بلغاریہ، کرویشا، یونان، کوسوو، رومانیہ، سلووینیا، سربیا، جمہوریہ مقدونیہ، مونٹینیگرو واور دیگر علاقوں پر مشتمل تھا۔
دسویں صدی کے آغاز سے جب سلطنت بازنطینہ کمزور ہونا شروع ہوئی تو بلقان اور اس سے related areas پر حکومت کے لیے مقامی قبائل کے درمیان لڑائی شروع ہوئی ،اور اگلی پانچ صدیوں تک حکومت کی چھینا تانی چلتی رہی ۔جس کا اختتام خلافت عثمانیہ میں شمولیت پر ہوا ۔خلافت عثمانیہ کی طرف سے ان علاقوں کا پہلا باقاعدہ گورنر 1521عیسوی میں غازی خسرو بیگ کو مقرر کیا گیا
یہ بڑا بیدار مغز، منصف مزاج اور کافروں کی سازشوں کو سمجھنے والا حاکم تھا اس نے جب بلقان جزیرے کی حدود پر پر نظر دوڑائی تو اس کی عقابی نظریں یہ جان گئی کہ بلقان خشکی کا ایک ایسا جزیرہ ہے ۔جس کے چاروں طرف متعصب عیسائیوں کا سمندر ہے ۔
اس کی six since نے اس کو warn کیا کہ اگر اللہ نہ کرے یہاں خلافت کی گرفت کھبی کمزور ہوئی تو یہ مسلمان ہر direction سے ان کے رحم و کرم پر ہوں گے ۔لہذا! یہاں پر ایک ایسا جامعہ ہونا چاہیے جو زندگی کے تمام شعبوں دینی و دنیاوی میں ان مسلمانوں کی رہنمائی کا حق ادا کر سکے ۔اور رہتی دنیا تک اس کا نام ایک نظریہ کے طور پر موجود رہے ۔چنانچہ اس نے اپنی اس سوچ کو عملی جامہ کی شکل دینے کے لیے 1531 عیسوی میں ایک extraordinary جامعہ تیار کروایا ۔اس زمانے میں علم کے مراکز میں دمشق، بغداد اور کوفہ ہوتے تھے ۔غازی نے وہاں کے مسلمانوں کے لیے انہیں کے ملک میں ایک ایسا جامعہ بنایا ۔جس میں غازی نے تمام دینی اور دنیاوی علوم ایک جگہ جمع کر دیے ۔
اس لیے کہ یہ ادارہ مسلمانوں کو حافظ، عالم، قاری کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو سپہ سالار، سائنس دان اور ان کو نظریاتی فوج بھی دیتا رہے
ایسے جامعات دنیا میں ہر جگہ موجود ہوتے ہیں ۔لیکن! اس جامعہ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس کی construction سے پہلے ایسے اوقاف کا بندوبست کیا گیا کہ جن کی incom سے یہ جامعہ تعمیر ہو سکے اور ان اوقاف کی آمدن سے اس جامعہ کا انتظام وانصرام چل سکے حالانکہ usually ایسا نہیں ہوتا، anyway غازی خسرو بیگ نے مسلمانوں کو ایک عظیم الشان جامعہ تحفے میں دیا، اور اس کے ساتھ ساتھ بڑی آمدنی والے اوقاف بھی ۔
ساتھ اس نے یہ Messages بھی دے دیا کہ بیدار مغز حکمرانوں کی سوچ بڑی braodہونی چاہیے اور planing بھی ۔
عالمی دنیا کے تجزیہ نگار شاہ منصور صاحب لکھتے ہیں ۔کہ آج کی دنیا میں successful nation وہ ہے جس کا concept بھی اپنا ہو اور اس concept میں رنگ بھرنے کی منصوبہ بندی بھی اپنی ہو ۔اگر قوم کا dream اپنا نہ ہو تو اس میں جتنے بھی رنگ بھر لیے جائیں اس کا result کچھ اور ہی ہو گا ۔
اسی لیے طاغوتی طاقتیں جب کسی قوم سے اس کے future کو چھیننا چاہتی ہیں تو اس کو ایک idea دے کر چلی جاتی ہیں
غازی خسرو بیگ تو اس دنیا سے چلا گیا لیکن اس کا لگایا ہوا پودا اس وقت مسلمانوں کے لیے شجرے سایہ دار بنا جب کسی جگہ ان کو سر چھپانے کی جگہ نہ ملی
تقریبا ساڑھے تین سو سال بعد 1880ء میں مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کی کوشش کی گئی تو اس وقت وہی لوگ ان کمزور مسلمانوں کا سہارا بنے جو غازی کے جامعہ کے گریجویٹ تھے ۔پھر ایسی ہی کئی کوششیں جنگ عظیم اول اور دوم میں کی گئی ۔یہ مہمات دراصل مسلمانوں کو ختم کرنے کی تھیں
لیکن ان مہمات کے آگے غازی کی منصوبہ بندی کام آگئی، غازی کے جامعہ سے گریجویٹ students ان کے لیے سد سکندری ثابت ہوئے ۔وہ جانیں قربان کرتے رہے اور قوم کو زندگی ملتی رہی، لوگ شہید ہوتے رہے، اور اسلام کا جھنڈا سر بلند رہا ۔
ان لوگوں نے بغیر کسی بیرونی امداد کے اس عالReproductive مہم کا سامنا کیا اور فائزون ٹھرے ۔
غازی خسرو بیگ کےاسی نظریے پر آگے چل کر مسلم سلاطین نے جامعات کی basisرکھیں،
برصغیر میں انگریز کے آنے سے قبل کے جامعات غازی کے اسی نظریہ کے ساتھ establish تھے ۔مسلمانوں کو ان کے طریقہ تعلیم اور جامعات کے اس خود کفالتی نظام سے محروم کرنے کے لیے طاغوتی طاقتوں نے سب سے پہلے خلافت سے محروم کیا اور پورا سرمایہ سے بھی محروم کیا جو غازی اپنے جانشینوں کو وراثت میں دے کر گیا تھا
انگریز مصنف کبیری ہارڈی بیکس مولر کے reference سے لکھتا ہے ۔
برصغیر میں انگریزی تسلط سے قبل بنگال میں 80 ہزار مدارس تھے ۔صوبہ بنگال میں امراء اور سلاطین نے مدارس کے لیے جو اوقاف مقرر کیے تھے ہم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے throughمسلمانوں کو ان سے محروم کیا ۔
اWww.Hunter اپنی کتاب The Indian Muslim میں لکھتا ہے کہ ہم نے مسلمانوں کو ان کے study pattern اور سرمایہ سے محروم کر دیا جس پر ان کی evolution کا دارومدار تھا ۔اور مسلم شہزادوں میں جو زمینوں کے قطعات وقف کرنے trendھا اس سے محروم کر دیا
1840 ء کے بعد متعصب انگریز جنگجو مفکر لارڈ تھامس میکالے نے 1859ء کے زیر نگرانی سرکاری انگریزی تعلیمی نظام کو مرکزی حیثیت دی ۔مسلمانوں کے قدیم سے چلے آنے والے تعلیمی نظام کے سر پرست اوقاف کے ذرائع آمدن پر 18 38 ء میں پہلے ہی قبضہ کر لیا تھا ۔سو اس سرمایہ سے امت مسلمہ کو یکسر محروم کر دیا ۔۔۔اس کارروائی کا مسلمانوں کے تعلیمی نظام پر کیا اثر پڑا، یہ تاریخ کی ایک مکمل بحث ہے، جو on the Record ہے آج جامعات کی تعلیم اور اس کے اخراجات پورا کرنے کے یہ دونوں طریقے ہم سے رخصت ہو گئے ہیں ۔البتہ دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیاں اسی ویئن پر عمل پیرا ہیں اور ان کے اربوں کھربوں ڈالر کے اوقاف ان کو خود کفیل بنائے ہوئے ہیں
مغرب میں تیسری دنیا کی قیادت کا نظریہ وقف کے اسی نظام سے پورا کیا جا رہا ہے ۔جو ہمارے آباء و اجداد کا نظریہ تھا
ہمارے اکابر تو دینی قیادت اپنی سرزمین اور اپنے وسائل کے بل بوتے پر تیار کرتے تھے ۔۔۔
مسئلہ اوروں سے سیکھنے کا نہیں اپنی میراث کو زندہ کرنے کا ہے ۔دوسروں کی تقلید کا نہیں اپنی متاع گم گشتہ کی تلاش کا ہے
آسمانوں پر نظر کر، انجم و مہتاب دیکھ
صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ