99

لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں؟/تحریر/نمرہ امین (لاہور)

معاشرے میں آج کل بہت زیادہ خودکشی عام ہوگئی ہے۔ تقریباً 80 فیصد لوگ حالات اور معاشی تنگی کی وجہ سے خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اپنی غربت اور گھر کے حالات کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ ان کا گزر بسر بہت ہی مشکل سے ہوتا ہے۔ ان کے گھر کے افراد بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاکہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔ ایسے بہت سے گھرانے ہیں جن کے افراد کوئی کام، کوئی نوکری نہیں کرتے ہیں وہ صرف بھیک مانگ کر اپنا گزارا کرتے ہیں۔
کافی گھرانے متوسط طبقے کے ہوتے ہیں جو کوئی کام کوئی نوکری کرتے ہیں یا مزدور دیہاڑی کر کے اپنے خاندان کو پالتے ہیں۔ لیکن آج کل مہنگائی اس حد تک بڑھ گئ ہے کہ ایک دو افراد کے کمانے سے بھی گھر کا راشن، بیوی بچوں کی دیگر ضروریات پوری نہیں کوئی کر سکتا ہے اور اسی وجہ سے آئے دن گھر میں فتنہ فساد، لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں جس وجہ سے ایک آدمی یا گھر کا کوئی بھی فرد ہو تنگ آجاتا ہے اور اس مہنگائی اور اپنی مالی و معاشی حالات کو دیکھ کر کبھی کوئی مرد خودکشی کر لیتا ہے تو کبھی ایک ماں اپنے سارے بچوں کے ساتھ خودکشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتی ہے۔ تو کبھی ایک باپ اپنے بچوں کو مار دیتا ہے۔ آخر کیوں! ہم کون ہوتے ہیں اپنی زندگیوں کا فیصلہ کرنے والے اور ختم کرنے والے؟ جب کہ ہماری زندگی اللہ کی امانت ہے اللہ کی عطا کردہ نعمت ہے۔ اس زندگی پر انسان کا ایسا کوئی حق نہیں ہے جو وہ یہ زندگی ختم کرے۔ دین اسلام میں خودکشی کرنا حرام ہے۔ ہر انسان اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہے اور اللہ جس کو چاہے جیسے چاہے نوازتا ہے اور اگر اللہ کی دی ہوئی جیسی بھی زندگی ہے اس پر ہم صبر و شکر کریں اور محنت، ہمت سے کام کر کے گزاریں تو اللہ ہمیں بہت زیادہ سے نوازے گا بشرط یہ کہ ہمیں اللہ پر سچے دل سے یقین کرنا چاہیے اور نماز قرآن سے مدد لینی چاہیے۔ (بے شک دلوں کا سکون اللہ کی یاد میں ہے۔)

“دوسرا ہمارے معاشرے کا خودکشی کا جو رجحان ہے وہ آج کل کی نوجوان نسل میں بہت زیادہ ہوگیا ہے۔”
90 فیصد ایسے نوجوان ہیں جو اپنی زندگی کو ختم کر لیتے ہیں بغیر سوچے سمجھے یہ قدم اٹھا لیتے ہیں اور اپنے والدین کو زندگی بھر کا دکھ، درد، غم دے جاتے ہیں۔ جو اپنی جوان اولاد کی موت سے زندہ لاش بن کر رہ جاتے ہیں۔ “نوجوان نسل میں خودکشی کرنے کی وجوہات جو بہت حد تک عام ہیں: ان میں محبت میں ناکامی، امتحانات میں ناکامی، نوکریوں کا نہ ملنا، گھر کی ذمہ داری پوری نہ کر سکنا، لوگوں کی باتیں، طعنے سننا، یہ سب ان کو ڈپریشن میں لے جاتا ہے اور وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ڈپریشن جب ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہو جائے تو یہ ہنستے مسکراتے انسان کو اس کے گھر کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔
اگر ہمارے ملک کے حالات اچھے ہوں تو کوئی بھی انسان ڈپریشن جیسے موذی مرض میں مبتلا نہیں ہوگا اور ہر نوجوان نسل کو جب ہمارا معاشرہ عزت سے رہنے دے گا تو وہ خود پر یقین کر کے اپنے حال میں خوش رہ سکے گا اور اپنے مستقبل کے لیے کوشاں رہے گا محنت کر کے اپنا مستقبل سنوار سکے گا۔
لیکن اگر ہمارا معاشرہ ہی ہماری نوجوان نسل کو طعنے دے گا، ان کا حوصلہ، ہمت ہی توڑ دے گا تو اس نوجوان نسل نے خودکشی ہی کرنی ہے۔ وہ سب کی باتوں اور حالات کے ظلم سے تنگ آ کر اپنی قیمتی جان کا خاتمہ کر دیتا ہے بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ ہماری نوجوان نسل اپنے ہنر، اپنی قابلیت، کی بنا پر ایک اعلیٰ مقام حاصل کر کے ایک قابل انسان بن سکیں اور اسی معاشرے میں باتیں کرنے والوں کو جواب دے سکیں۔ تعلیمی ناکامی کو ایک روگ ایک مرض نہ بنائیں بلکہ اس کو مکمل کرنے کی بار بار کوشش کریں اور یقین کریں انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ اپنے اللہ کو ہر وقت میں ہر بات میں یاد رکھیں اور اس ذات پر یقین کریں اسی سے مدد طلب کریں اور دعائیں کرتے رہیں۔ “بے شک دعائیں تقدیر کو بدل دیتی ہیں۔” نماز، قرآن کو اپنی زندگی میں شامل کریں، اسی سے مدد ملے گی اور ہمت حوصلہ، صبر، برداشت کو اپنی زندگی میں شامل کریں اس سے ہمیشہ ہر قدم پر کامیابی آپ کا مقدر بنے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں