149

اپنی بیٹیوں کو سیدہ فاطمہ کی پیروکار بنائیں / محمد اسید انور

*اپنی حالات حاضرہ کی طرف نظر دوڑائیں تو بے بہا فتنے دیکھنے کو ملتے ہیں- ان خرابیوں کی تحقیق کریں تو معاشرے میں پھیلے فتنے کی بنیاد فحاشی اور عورتوں کی بے پردگی ہے- یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ” عورتیں شیطان کا جال ہیں “سے روز روشن کی مثل عیاں ہے۔ ہم اپنے ماضی و موجودہ حالات پر نظر دوڑائیں تو عجیب و غریب چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔بچپن سے کفار مکہ کے گزرے جہالت میں المناک دردناک قصے سماعت کر کے خوف آتا تھا- کہ ظالم اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے- ان کی حیوانیت کے قصے سنتے روح کانپ جاتی تھی- انہیں اپنی معصوم گلاب کی پتیوں پر ذرہ بھر نہ رحم آتا تھا، بھلا ان صنف آہن سی کلیوں کا کیا قصور، جب بھی سوچتا شش و پنج میں گہرا ہی اٹھتا ۔لیکن پھر سرور کونین رحمت للعالمین خاتم النبیین والمرسلین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریف لانے کے بعد انسانیت کو رہنے سہنے کا سلیقہ سکھایا- بیٹی کو گھر کی شہزادی بنایاـ عزت کے تمغہ سے نوازاـ پنجابی کے محاورہ میں گویا کہ “تلی دا چھالہ” بنایا۔پھر قدرت نے وہ دور بھی دیکھا، وڈیرائی نظام قائم ہواـ غریب بچیوں کی عزتوں عفتوں سے کھیلا جانے لگاـ رات کی محفل میں عورت کو نچایا جاتا تھاـ گھپ اندھیرے میں گل چھرے اڑائے جاتےتھےـ عزتیں تار تار ہوتیں تھیں ـ اس کے مقابل کوئی حکومت اور قانون نہ تھاـ جس کا پیسہ اسی کی حکومت اسی کا قانون تھاـ بیچارہ غریب مرتا کیا نہ کرتا مظلومیت میں پس رہا تھا۔پھر وہ محاورہ صادق آتا دیکھا، “جیسی کرنی ویسی بھرنی” قدرت الہی کو جوش آیاـ کیا دھرا ان وڈیروں کے منہ پر پڑاـ وہ مال دار لوگ جو غریب کی بیٹی کو اپنی محفل میں زینت بناتے تھےـ انہیں کی اولادیں اپنی بیٹیوں کی شادیوں، گھر کی محفلوں،اور سوشل میڈیا پر ناچنے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھنے لگیں ـ Tik Tok پر دو ٹھمکے لگا کر وہ عزت کمانے لگیں ـ نتیجتا زنا عام ہوگیاـ زنا کے گندے کیچڑ میں پکڑی جانے والی بیٹی کو ان پڑھے لکھے جاہلوں نے ہلکی سی mistake کہ کر درگزر کیاـ  حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ انسان بہر صورت زنا کرتا ہے، سوائے اس کے جسے اللہ بچائے، پھر اللہ کے نبی ﷺ نے اس کی کئی مثالیں ذکر کیں: جب کوئی مرد کسی عورت کو دیکھے، اگرچہ بغیر شہوت کے ہو اور وہ عورت اس کی محرمات میں سے نہ ہو، تو یہ بھی زنا کی ایک قسم ہے۔ یہ آنکھوں کا زنا ہے۔ انسان کا کسی اجنبی عورت کی گفتگو سن کر اس کی آواز سے لطف اندوز ہونا۔ یہ کانوں کا زنا ہے۔ ہاتھ سے چھونا وغیرہ۔ یہ ہاتھ کا زنا ہے۔ انسان کا فُحش کاموں والی جگہ کی طرف جانا یا عورت کی آواز سننے جانا یا کسی عورت کو دیکھ کر اس کا پیچھا کرنا، یہ سب زنا کی قسمیں ہیں۔ دل کا عورتوں کی طرف میلان یہ بھی دل کا زنا ہے۔ جب انسان شرم گاہ کے ذریعے زنا کرتا ہے-اللہ کی پناہ- تو یہ ان اعضا کے زنا کی تصدیق ہے۔ اگر وہ شرم گاہ کے ذریعے زنا نہ کرے، بلکہ محفوظ رہےـ تو یہ ان اعضا کی تکذیب ہے۔ یہ حدیث عورتوں سے بچے رہنے پر دلالت کرتی ہےـ کہ نہ ان کی آواز سنی جائے، نہ ان کی طرف دیکھا جائے، نہ چُھوا جائے، نہ ان کی طرف جانے کی کوشش کی جائےـ اور نہ ان کی طرف قلبی میلان کیا جائے۔ یہ سب زنا کی قسمیں ہیں -اللہ کی پناہ- اس لیے عقل مند اور پاک دامن انسان کو ان اعضا سے متعلق ایسی تمام چیزوں سے بچنا چاہیے، جو کسی بھی طرح عورتوں سے تعلق کا سبب بنتی ہیں۔ افسوس کہ آج اس معاشرہ میں انسانیت کا درس دینے والے کالجوں اور یونیورسٹیز کے مخلوط نظام تعلیم نے ایسا بگاڑ پیدا کیا ہےـ طلباء اپنی ہم عمر لڑکیوں سے تعلقات قائم کرنے سے اجتناب کرنا تو در کنار غلط سمجنے کو ہی تیار نہیں ـ حالانکہ حدیث پاک میں ان ناجائز تعلقات کو بھی زنا سے تشبیہ دی گئی ہےـ اسی خرابی کی بنا پر کچھ دن پہلے ایک بڑی یونیورسٹی کے المناک حالات عوام الناس پر عیاں ہوئےـ جس نے مومنین کے دل دہلا کر رکھ دیئےـ اگر یونیورسٹی کے طلباء سے کہیں گپ شپ کا موقع فراہم ہو تو ـ ان کی زبانی تعلیمی اداروں کے حالات سن کر اکبراٰلہ بادی کا یہ شعر یاد آتا ہے ـ یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی سچ کہوں تو ان لوگوں کی مسلمانیت پہ شرم آتی ہے، عشق رسول کے دعوے پر رونا آتا ہے ۔ اب جاکر میں سمجھا، کہ وہ مشرکین مکہ بیٹی کو دفن کیوں کرتے تھے؟ دراصل وہ بیٹی کو اپنی عزت ہی سمجھتے تھے، کہیں کوئی اس پر نگاہ نہ اٹھائے، کسی لڑکے کا اس کو بیاہ لے جانا بھی اپنی بے عزتی کے درجہ میں لاتے تھے، اس کے بارے میں لوگوں کی اپنی مجالس میں باتیں کرنے سے ڈرتے تھے، لیکن وہ اپنی عزت بچانے کا ایک وحشیانہ طریقہ اختیار کرتے تھے، بیٹی کو صرف اس وجہ سے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے اور دفناتے تھے، کہ یہ ان کی عزت تار تار کرتی ہے ۔ان کا نظریہ سوچ عمل سب کچھ غلط اور وحشیانہ تھا، لیکن کم سے کم وہ اپنی بیٹی کے سرے عام آنے کو اپنی بے عزتی تو سمجھتے تھے، تف ہے آج کے ان لبرل مسلمانوں پر، جنہوں نے اپنی بیٹی کو حد درجہ کی چھوٹ دے رکھی ہے، جو بیٹی کے ناچنے کو عزت سمجھتے ہیں ، خدارا اپنی حالت پر غور کرو، اپنی اصلیت پہچانو، اور بیٹی کو باحیا باوقار طریقے سے گھر کی شہزادی بناوـ یہی عورت اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی گزارے ـ تو فاطمہ بنت رسول اللہ اور اماں عائشہ رضی اللہ عنھا بنیں گی ـ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں