106

ہم نے آزادی کیوں حاصل کی؟/تحریر/فخرالزمان سرحدی(ہری پور)

انداز بیاں اگرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جاۓ تیرے دل میں میری بات

عنوان اس قدر وسیع اور جامع ہے جس پر کچھ عرض کرنا میرےبس کی بات نہیں لیکن جذبہ اظہار مجھے اکساتا ہے کہ اس اہم موضوع پر کچھ عرض تو کروں۔یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں پر جو قیامت خیز صورتحال گزری خود ایک داستان الم ہے۔ تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیں تو صبح درخشاں کے لیے مسلمانان برصغیر کی جدوجہد کی بہت بڑی داستان ہے جس سے عظمت کی خوشبو آتی ہے۔ ظلم پھر ظلم ہے مٹ جاتا ہے اور خون پھر خون ہے جم جاتا ہے۔ایک لمحہ ایسا آیا کہ تحریک آزادی کا کارواں چل پڑا۔تاریخ کے حقائق کی روشنی میں تحریک آزادی کا بنیادی مقصد انگریز کی غلامی سے نجات حاصل کرنا تھا۔اس تحریک کا آغاز ہوتے ہی ماحول میں یکسر تبدیلی کی ہوائیں چل پڑیں۔اہل قلم نے ایسے ایسے جواہر دکھاۓ کہ دلوں میں انقلاب نے دستک دینی شروع کی جو برصغیر کے آزادی کے متوالوں کے لیے نیا موڑ ثابت ہوا۔بقول شاعر:.
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
گویا بلند عزم و ہمت اور احساس کو اس قدر اجاگر کیا گیا کہ درودیوار پر ایک لرزہ طاری ہوا۔لے کر رہیں گے پاکستان کی امنگ سے ایک اور تڑپ پیدا ہوئی۔گویا ایک نئی صورتحال پیدا ہونے سے اقتدار کی صفوں میں پریشان کن کیفیت پیدا ہوئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے ہم نے آزادی کیوں حاصل کی؟دو قومی نظریہ کی اساس میں ایک خاص مقصد پنہاں تھا کہ برصغیر میں مسلمانوں کی اپنی ایک سوچ اور فکر ہے۔اس آئینہ میں ایک گہری سوچ کارفرما ہے۔دانشوران اور رہنماؤں نے اس بات کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں جو ایک دوسرے سے تہذیبی لحاظ سے اور مذہبی لحاظ سے بھی مختلف ہیں۔اس لیے ان کے لیے الگ مملکت ناگزیر ہے۔یہی وہ مطالبہ تھا جو اللہ کے فضل وکرم سے پورا ہوا اور ایک سوچ اور فکر پروان چڑھنے سے انقلاب رونما ہوا۔بقول اقبال:.
مسلم خوابیدہ اٹھ ہگامہ آراء تو بھی ہو
نکل آئی وہ سحر گرم تقاضا تو بھی ہو
اس منظرنامہ میں ایک جذبہ اور تحریک نمایاں نظر آنے لگی۔گلی محلوں میں تحریک آزادی کی صدائیں زور پکڑنے لگیں۔جذبات میں ایک ایسی گرمی محسوس ہونے لگی گویا غاصب قوتوں سے یہ سیل رواں رک نہیں پاۓ گا۔
بقول شاعر:.
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔
ایک ایسا متلاطم خیز جذبہ جو تاریخ میں محسوس کیا گیا غاصب اور بر سر اقتدار قوتوں کے لیے لمحہ فکریہ ثابت ہوا۔آزاد مملکت کا حصول مسلمانوں کی دیرینہ خواہش تھی جو اللہ کے کرم سے پوری ہوئی۔یہ ایک فکر انگیز کیفیت برسر اقتدار قوتوں کی سوچ میں تبدیلی کا باعث بنی۔
غیرت و حمیت سے مسلمانان برصغیر میں ایک جوش اور جذبہ پیدا ہوا۔یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ:.
ظلم کی شب تاریک کے خاتمہ کا وقت آیا تو افراد ملتے گۓ اور کارواں بنتے گۓ۔تحریک آزادی کے نغمات سے ایک انقلاب آفریں کیفیت پیدا ہونے لگی اور ظالم سماج میں ایک بھونچال پیدا ہونے لگا۔قائدین مسلم برصغیر پاک و ہند کی سرپرستی میں یہ تحریک ایسے روپ میں سامنے آئی جس میں ایک جذبہ،ایک طنطنہ،ایک عزم دیکھ کر جابر قوتوں کے حوصلے پست ہوۓ۔قائد اعظم ؒ اور علامہ محمد اقبالؒ جیسی ہستیوں نے اس قافلہ آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی۔بقول اقبالؒ:.
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے درودیوار ہلا دو
تحریک آزادی اس وقت تحریک پاکستان کے نام میں تبدیل ہوئی جب تیئس مارچ انیس سو چالیس کو لاہور میں مینار پاکستان کے مقام پر تاریخ ساز اجتماع میں مولوی فضل حق شیر بنگال نے ایک قرارداد پیش کی جسے قرارداد پاکستان بھی کہتے ہیں۔اس سے مسلمانان برصغیر میں ایک اور جذبہ پیدا ہوا اور نۓ عزم کے ساتھ تحریک پاکستان چل پڑی۔اب کیا تھا مسلمانوں کے چہروں پر ایک عزم تھا ۔اس تحریک میں زندگی کے ہر شعبہ میں ایک قابل فخر کردار ادا کیا اور ایک صبح روشن کی امید پیدا ہوئی۔اس تحریک کے پس منظر پر نگاہ ڈالیں تو برصغیر کے مسلمانوں تحریک آزادی کے لیے منظم جدوجہد جاری رکھی۔کلام اقبال نے تحریک آزادی کو مؤثر بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔اکابرین کی عظیم قربانیوں اور عظیم کاوشوں سے چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو قیام پاکستان کے روپ میں کامیابی کا آفتاب طلوع ہوا۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تحریک آزادی تاریخ عالم میں ایک روشن باب ہے اور قربانیوں کی لازوال داستان ہے۔تحریک آزادی کا بنیادی مقصد ایک آزاد ریاست کا قیام تھا۔اللہ کے فضل وکرم سے تحریک آزادی کامیاب ہوئی۔صبح روشن طلوع ہوئی اور ظلم و ستم کا سورج غروب ہوا۔۔آزاد ی کا خواب پورا ہونے سے ایک نۓ عہد کا آغاز ہوا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں