128

اتفاق ضروری نہیں!/تحریر/علامہ ڈاکٹرمولانامحمد جہان یعقوب

آپ بے شک مجھ سے اتفاق نہ کریں،لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جس طرح نئی رسوم وبدعات کےپیچھے کمرشل مائنڈسیٹ کارفرماہوتاہے،اسی طرح یوم آزادی وجشن آزادی سمیت تمام تہواروں کے پیچھے بھی کمرشل مائنڈسیٹ ہوتاہے۔ان کواپنی مصنوعات بیچنی ہوتی ہیں اورتہواروں پرکوئی بھی چیزلینے والا سستے اورمہنگے کے چکرمیں نہیں پڑتا،بچوں کو کیاپتا باپ کے کیاحالات چل رہے ہیں،ان کوتوضدکرنی ہے اورسووالی چیز پانچ سومیں لے کرخوش ہوناہے،باپ کہیں سے بھی انتظام کرے،یہ ان کامسئلہ نہیں،لیکن سرمایہ دارانہ نظام ،جس کے سینے میں دل نہیں پتھرکی سل ہوتی ہے،اسے بھی کسی سے کوئی سروکار نہیں،اس کامال بِکناچاہیے،چاہے خریدار کو اس کی جوبھی قیمت اداکرنی پڑے۔

برساتی کھمبیوں کی طرح ہرگلی محلے میں موجود ہرائیویٹ اسکولزکے مالکان کے پیشِ نظربھی یہی کمرشل کانسیپٹ ہوتاہے،تھوڑا لگاؤزیادہ کماؤ۔جشنِ آزادی کی تقریبات کے نام پر بچوں کے لیے کبھی پرچم کے کلرکے کپڑے لازمی کرنے،کہ آج فلیگ ڈے ہے،کبھی کسی رنگ کے توکبھی کسی رنگ کے،بچہ ڈیمانڈ کرتاہے ابو!جوتے بھی اسی کلرکے چاہئیں،ورنہ سب بچے میرامذاق اڑائیں گے۔باپ کہیں سے بھی کرکے مہیاکردیتاہے۔ایسے مواقع پر عام سے کپڑے کی قیمت بھی نارمل حالات کے مقابل دُگنی نہیں تگنی وصول کی جاتی ہے۔آپ بحث شروع کردیں کہ بھائی!اس کپڑے میں ایساکیا رکھا ہے؟تویہ کہہ کرکپڑا آپ کے سامنے سے ہٹالیا جاتاہے کہ نہیں لیناہے تونہ لیں،ہمارا اوراپناوقت کیوں ضائع کررہے ہیں۔

کیاکوئی ایسا منصف بھی آئے گاجواس سرمایہ دارانہ ذہنیت پرروک لگائے۔غریب کارہا سہاخون چوسنے والے تہواروں کی روک تھام کرے،مافیا کاروپ دھارے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو لگام ڈالے،جوہربچے سے تعلیم کے علاوہ ہم نصابی سرگرمیوں کے نام پرسالانہ ایک خطیر رقم وصول کرتے بلکہ بٹورتے ہیں۔اگرآپ کویاد ہوتو عدالت کی طرف سے ایک دوسال قبل پرائیویٹ اسکولوں کوپابندکیاگیا تھاکہ اپنا کورس اوراپنی کاپیز نہ چھاپیں،بلکہ مارکیٹ میں جوکورس دست یاب ہے اسی پرتعلیم دیں،کیاہوا اس آرڈرکا۔پرائیویٹ اسکولزاب بھی اپناکورس چھاپ اور چھپوارہے ہیں اورسو پچاس والی کتاب تین سے پانچ سو میں بیچ رہے ہیں۔صرف اسکول کے لوگوکی وجہ سے پچاس والی ڈائری سوکی اورساٹھ والی کاپی ایک سوتیس کی ہوجاتی ہے اور بچوں کوسختی سے پابند کیاجاتاہے کہ اسکول کے لوگو والا کورس اورکاپیز ہی چلیں گی۔کیاان ظالموں نے کبھی یہ بھی سوچا کہ جن گھروں میں دووقت کی روٹی کے لالے پڑگئے ہوں،وہ کہاں سے ان عیاشیوں کاتحمل کریں گے۔

یہی استحصالی وسرمایہ دارانہ سوچ ڈاکٹروں نے بھی اپنا رکھی ہے۔دعوے خدمتِ خلق کے کرتے ہیں اورڈیڈ باڈی بھی اس وقت تک ریلیز نہیں کرتے جب تک آپ پورا حساب نہ چُکتا کردیں۔چیک اپ کے نام پرایک مریض کودو سے تین منٹ دینے والا ڈاکٹردراصل فارماسیوٹیکل کمپنیزکاکمیشن ایجنٹ ہوتاہے،جوآپ کوبٹھاکر سرجھکائے دوائیوں پردوائیں لکھ کراپنا کمیشن بنارہاہوتاہے۔قانون پاس ہوا تھا کہ ڈاکٹرکسی کمپنی کی دوا نہیں لکھ کردیں گے،اس پر کتنا اور کہاں کہاں عمل ہوا؟کوئی بتا سکتاہے۔اب توحد یہ ہوگئی ہے کہ ڈاکترکی لکھی ہوئی دوا ملتی بھی اسی کے کلینک یا ہسپتال کے قریب واقع اسٹور سے،ورنہ پورا شہرچھان ماریے،کہیں سے نہیں ملتی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں