(20 اپریل 1870ء – 16اگست 1961ء)
بابائے اردو مولوی عبد الحق بر صغیر پاک و ہند کے ماہر لسانیات ، مفکر، محقق ، اور اردو زبان کے ایک بلند پایہ مفکر تھے ۔
انہوں نے اپنی زندگی اردو زبان کی ترویج و ترقی اور فروغ کے لئے وقف کر دی تھی ۔
مولوی عبد الحق کی ذندگی کے ابتدائی دور
مولوی عبد الحق کے آباؤ اجداد باپوڑ کے ہندو کائستھ تھے ۔مغلوں کے دور حکومت میں ان کے آباؤ اجداد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
مولوی عبد الحق جب برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں کا یعنی برطانوی دور حکومت تھا اس وقت 20 اپریل 1870 ء میں (باپوڑ ) میرٹھ صلع اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔
مولوی عبد الحق کی تعلیمی سرگرمیاں
مولوی عبد الحق نے اس زمانے کے رواج کے مطابق ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی ۔مولوی عبد الحق کو بچپن سے ہی ریاضی کے مضمون سے دلچسپی تھی۔مولوی عبد الحق غور وفکر اور گہرے مشاہدے میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔اس کے علاوہ ان کو شعر وشاعری اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں پسند تھی اور ان کا مطالعہ کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔
اس کے علاوہ تاریخ ،فلسفہ اور مذہب کے بارے میں کتب کا مطالعہ کرنا بھی ان کو پسند تھا۔ فلسفہ ،تاریخ،شعر وشاعری اور مذہب کے علوم کو پڑھنے اور سمجھنے سے ان کے دل ودماغ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اس مطالعہ نے ان پر بہت مثبت اثرات ہوئے اور انہوں نے اپنے ارد گرد مسلمانوں کے حالات پر ان کے مسائل پر توجہ دینے کی عملی کوششوں کا آغاز کیا۔اور اپنے تحقیقی مضامین سے علمی اور لسانی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اس کے بعد اسکول کی تعلیم مکمل کر کے علی گڑھ اگئے اور 1894ء میں علی گڑھ کالج ںسے گریجویشن کیا اور بی اے کی ڈگری حاصل کی۔
علی گڑھ میں اس وقت سر سید احمد خان مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب کرنے کی جدو جہد میں مصروف عمل تھے۔
سر سید احمد خان کے خیالات اور نظریات نے مولوی عبد الحق کے دل ودماغ پر گہرا اثر ڈالا ۔
سر سید کے خیالات نے مولوی عبد الحق کو مسلمانوں کی تعلیم کی طرف متوجہ کیا اور مولوی عبد الحق نے 1895ء میں حیدرآباد دکن کے ایک اسکول میں ملازمت اختیار کر لی اور مسلمان بچوں کو تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔
حیدرآباد دکن سے صدر مہتمم تعلیمات اورنگ آباد تعینات کر دئے گئے ۔
اس کے بعد اورنگ آباد کے کالج کے پرنسپل کی زمہ داری پر فائز ہوگئے ۔
انجمن ترقی اردو کا قیام
ال انڈیا محمڈن ایجوکیشن کے ماتحت 1902ء میں ایک ادارہ کا قیام عمل میں آیا ۔
جس کا نام انجمن ترقی اردو رکھا گیا۔ مولانا شبلی نعمانی کو اس انجمن ترقی اردو کا سکیرٹی نامزد کیا گیا۔
1905ء میں شبلی نعمانی کی جگہ نواب حبیب الرحمن شیروانی کو انجمن ترقی اردو کا سیکرٹری بنادیا گیا۔ان کے بعد عزیز مرزا 1912ء تک سیکریٹری کے فرائض انجام دیتے رہے ۔
ان کے بعد 1912ء میں مولوی عبد الحق سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوگئے ۔مولوی عبد الحق نے انجن ترقی اردو کو ایک نام اور فعال ادارہ بنانے میں دن رات بہت محنت کی اور انجمن ترقی اردو ایک علمی اور فکری حثیت سے ایک کامیاب ادارہ کی صورت میں اپنا کردار اور مقام حاصل کرنے میں ہوگیا۔
مولوی عبد الحق انجمن ترقی اردو کے ادارہ کو حیدرآباد دکن لے گئے اور اس ادارہ کا صدرمقام حیدرآباد دکن بن گیا۔
مولوی عبد الحق کی محنت اور کوششوں سے دکنی زبان میں جو ادبی اور علمی تحقیقی کام ہوا تھا اس کو اردو زبان سے دلچسپی رکھنے والوں تک پہنچانے کا انتظام کیا تاکہ ذیادہ سے ذیادہ لوگ ان علمی اور ادبی شہ پاروں سے مستفید ہوسکیں
انجمن ترقی اردو نے ایک ترجمہ کا شعبہ قائم کیا جس کو دارالترجمہ کا نام دیا گیا۔ اس ادارے میں مختلف موضوعات پر سیکنڑوں علمی کتابوں کو اردو ذبان میں منتقل کیا گیا۔
انجمن ترقی اردو کے زیر اہتمام ایک لاکھ سے زائد جدید سائنسی ،علمی اور دوسرے فنون میں کتابوں کے ترجمے کئے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ علمی اور فنی اصطلاحات کو اردو ذبان میں منتقل کی گیا۔اس کے علاوہ اردو ذبان کے قدیم اور نادر نسخوں کو تلاش کیا گیا اور ان کو چھپوا کر لوگوں تک رسائی آسان بنائی گئی۔
اس انجمن کے ماتحت سائنسی اردو رسائل دو سہ ماہی جاری کئے گئے۔
اس انجمن کا ایک اور اہم کام عظیم الشان کتب خانہ کا قیام ہے ۔ اس کتب خانے سے علم کے شوقین حضرات کی ایک بہت بڑی تعداد مستفید ہوتی تھی۔
عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن کا قیام بھی اسی انجمن کے حصے میں آتا ہے اس یونیورسٹی میں اردو زریعہ تعلیم تھا
انجمن ترقی اردو کا پاکستان میں کردار
قیام پاکستان کے بعد کراچی میں اردو ارٹس اور سائنس کالج ،اردو کامرس کالج،اردو لا کالج جیسے ادارے بنانے کا سہرا اسی انجمن کے سر پر سجا ہے اور اج اردو سائنس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہے ۔
یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مولوی عبد الحق انجمن ترقی اردو کے صرف سیکرٹری جنرل ہی نہیں بلکہ مجسم ترقی اردو کی مانند تھے ۔
مولوی عبد الحق دن و رات اردو کی ترقی کے لئے کوشاں رہتے تھے ۔ان کی ذندگی کا ہر لمحہ بلکہ ہر کام کھانا پینا،اٹھنا بیٹھنا لوگوں سے ملنا جلنا ،غرض ہر کام صرف اور صرف اردو کی ترقی کے لئے اور انجمن کی ترقی کے لئے تھا۔
مولوی عبد الحق کی تصانیف
مولوی عبد الحق نے بہت سی تصانیف اردو پڑھنے والوں کے لئے تحریر کی ہیں ان میں سے چند معرکتہ اراء تصانیف میں مخزن شعراء ،افکار حالی ،انتخاب داغ، انتخاب کلام میر ، قواعد اردو، قدیم اردو، اردو انگریزی ڈکشنری ، اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کردار ،اردو کی صرف و نحو ،سر سید احمد خاں کے افکار و حالات ، پاکستان کی سرکاری اور قومی زبان کا مسئلہ یہ تصانیف اردو ذبان کا قیمتی سرمایہ ہیں ۔
بابائے اردو مولوی عبد الحق کی وفات
بابائے اردو مولوی عبد الحق کا 16 اگست 1961ء میں کراچی میں انتقال ہوا اور وفاقی اردو یونیورسٹی میں مدفون ہیں ۔
