گذشتہ روز فیصل آباد کی تحصیل جڑنوالا میں پیش آنے والے واقع نے دکھی کر دیا ایے واقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے سوشل میڈیا پر ایک مسیحی کی جانب سے لکھا گیا خط جس میں کچھ گستاخہ الفاظ استعمال لئے گئے تھے اور قرآن کریم کے اوراق جن کی بدبخت کی جانب سے بے حرمتی کی گئی تھی بار بار دکھایا گیا جس مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوا اور وہ مسیحی بھائیوں کے کی عبادت گاہوں پر چڑھ دوڑے اور وہاں ان کی مقدسات کو جلایا اور وہاں توڑ پھوڑ کی کچھ شرپسند نوجوان عبادت گاہ کی چھت پر چڑھ گئے اور توڑ پھوڑ شروع کردی گئی حالات کشیدہ ہونے لگے مشتعل ہجوم یہاں نہیں رکا انہوں نے عیسایوں کے گھروں پر حملے شروع کر دئے کچھ گھروں کو آگ لگا دی گئی مسیحی بھائی اپنی عورتیں بچے لئے شہر سے دور بھاگنے پر مجبور ہو گئے لوگوں نے مسلمانوں کے ڈر سے رات ویرانے میں گذاری بچے اور عورتیں سڑکوں پر سوتی نظر آئیں کیا یہ ہے ہمارا اسلام اور ہمارے پیارے نبی کا دین جس کاہم کلمہ پڑھتے ہیں اسلامی تعلیمات یہی ہیں کیا؟ذرا سوچئے اور خود سے سوال کیجیے کہ جب معصوم بچے اپنے گھروں کو جلتا دیکھ رہے ہونگے اور ماں باپ سے سوال کر رہے ہونگے کہ ہمارے گھر کو آگ کیوں لگائی جا رہی ہے تو والدین کیا جواب دے رہے ہونگے؟یہی کہ بیٹا یہ مسلمان ہیں یہ آخری نبی کی امت ہیں جو ہمیں اقلیت سمجھتے ہیں جن کا مذہب اچھے سلوک کا حکم دیتا ہے جو کہتا ہے کہ جانوروں سے بھی اچھا سلوک کر وں ان پر زیادہ وزن نہ ڈالو،کسی کو دکھ نہ دو کسی کا حق مت چھینو،کسی کے حق پر قبضہ نہ کرو،یہ جس نبی کی امت کے دعوے دار ہیں اس آخری نبی نے تو غیر مسلموں سے بھی اچھا سلوک کیا اپنے اوپر کوڑا پھینکنے والی غیر مسلم عورت کی تیمار داری کو گئے جس نے ان کے حسن سلوک کی وجہ سے کلمہ پڑھ لیا اور وہ مسلمان ہو گئی جس نے زندگی کے چالیس سال اپنے کردار سے ثابت کیا کہ ان سے بہتر کسی کا کردار ہو نہیں سکتا وہ محسن انسانیت ہیں وہ انبیا کے سردا ر ہے تب کیا بچوں نے سوال نہیں کیا ہو گا بابا یامما اگر ان کے نبی کی یہ تعلیمات ہیں تو یہ اسی آقا کا کلمہ پڑھنے والے کیا کر رہے ہیں یہ ہمارے گھروں کو کیوں جلا رہے توڑ پھوڑ کر رہے ہمارا کیا قصور ہے جس نے گستاخی کی اس کو کیوں نے پکڑتے اور اس کے خلاف قانونی کاروائی کیوں نہیں کرتے تب والدین پہ کیا گذری ہو گی یہ کوئی بچوں والا ہی جان سکتا ہے یا وہ جس کی آنکھوں کے سامنے اس کا گھر جل رہا ہے جس کی بہن بیوی بیٹی مسلمانوں سے اپنا آنچل اپنی عزت بچا کر بھاگ رہی ہو ہم کیسے مسلمان ہیں اسلام تو عزتوں کو تحفظ دینے کا درس دیتا بچوں پر شفقت اور بڑوں کا ادب سکھاتا ہے کیا اس ہجوم میں کوئی پڑھا لکھا نہیں تھا جس نے اسلامی تعلیمات کا مشاہدہ کیا ہو سوشل میڈیا پر ایک تصویر نظروں سے گذری جس میں چند معصوم بچے اور بچیاں ایک ویرانے میں لیٹے ہوئے ہیں ایک سائیڈ پر گھنی جڑی بوٹیاں ہیں اور ان معصوم بچوں کے والدیں حسرت کی تصویر بنے بچوں کے سرہانے بیٹھے ہیں جی ہاں یہ معصوم مسلمانوں کے خوف سے شہر سے دور ویرانے میں رات گذار رہے ہیں یہ وہ ہیں جن کے گھروں کو کلمہ پڑھنے والوں نے آگ لگا دی تھی سب دیکھ کر موجودہ چودہ سو سال قبل پیش آنے والا واقع کربلا یاد آگیا جب کلمہ پڑھنے والوں نے اپنے اس نبی کا گھر اجاڑ دیا اسکے نواسے شہید کر دئے جس کا وہ کلمہ پڑھتے تھے اور یہیں نہیں رکے شام غریبا ں آل نبی کے خیمہ جلا دیے آل نبی کاخاندان بھی ایسے ہی جنگل میں رات سویا تھا بچے سوال کرتے تھے ہمارے بابا کو کیوں شہید کیا گیا کون لوگ تھے تو جواب ملتا تھا ہمارے پیارے آقا کا کلمہ پڑھنے والوں نے ہم نے کبھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا نہ ہمیں سکھایا گیا ہے دنیا کا کوئی بھی مذہب ایسے شر پسندی کی اجازت نہیں دیتا اور مسلمان تو پر امن قوم کی دعوے دار ہے پھر یہ سب کیا ہے کبھی ہم سری لنکا کے شہری کو گستاخی کا مرتکب سمجھتے ہوئے سڑکوں پر گھسیٹتے ہیں اس کی ہڈیا ں توڑتے ہیں اور پھر زندہ کو آگ لگا دیتے ہیں کبھی ہم جڑنوالا اور کبھی سانحہ گوجرہ کر بیٹھتے ہیں ہم میں اسلام ہے کہاں کیا ہمارا کردار اسلام والا ہے کیا ہمیں اس بات کا علم بھی ہے ہم کیا کر رہے ہیں عیسایوں کی کتاب اتنی ہی مقدس ہے انہیں اتنا ہی دکھ ہوتا ہے جتنی ہمیں اپنی پاک کلام کی بے حرمتی کا ہوتا ہے اس کا مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہم ان کی عبادت گاہوں پر چڑھ دوڑیں توڑ پوڑ کریں وہاں پڑی مقدسات کو جلا دیں ان کے گھروں کو مسمار کر دیں قانون کس لئے ہے چاہئے تو یہ تھا کہ اس کی پہلے تصدیق کی جاتی اس کے بعد ذمہ دار کو قانون کے سامنے پیش کرتے ہوئے اس سے اس سب کی وجہ معلوم کی جاتی جرم ثابت ہونے پر اسے پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق سزا دی جاتی مسلمان بھائی اس کے لئے آواز اٹھاتے اچھا وکیل کرتے ہوئے اسے پھانسی لگوا دیتے قانون کو ہاتھ میں لینا خود ہی منصف بن جانا اسلام کا نعرہ لگاتے ہوئے غیر اسلامی فعل کرنا کسی مسلمان کو زیب نہیں دنیادنیا ہمیں پہلے ہی شر پسند اور دشت گرد سمجھتی ہے ہمیں مولویوں نے اسلام کے نام پر منشر ہی اتنا کر دیا ہے کہ ہم اصل اسلام سے کوسوں دور ہو چکے ہیں خدا کی قسم یہ وہ اسلام نہیں ہے یہ اسلام آقا کریم کی تعلیمات کے منافی ہے ہم اسلام کی غلط تشریح کرتے ہوئے گمراہ ہو رہے ہیں ہمیں اپنے قول و فعل پر غور کرتے ہوئے حقیقی اسلام کو اپنانا ہوگا ہمیں اہل کتاب کی قدر کرتے ہوئے انہیں اپنے کرادر سے موم کرنا ہو گا اپنے کردار سے ان کی نظروں میں اپنا مقام بنانا ہو گا تا کہ غیر مسلم ہمیں دیکھ کر ہمارے قریب آئیں اور اسلام قبال کرنے پر مجبور ہو جائیں ہمارے ایسے فیصلے غیر مسلم بھائیں کو ہم سے نہ صرف دور کر رہے بلکہ وہ ہم سے نفرت کرنے لگے ہیں اور نفرت سے ہمیشہ غلط فیصلے ہوتے ہیں جب کسی سے آپ نفرت کرتے ہیں تو اس کو تکلیف دینے کے لئے آپ کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں لہذا ہمیں آقا کریم کی زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے کردار کو اتنا مضبوط کرنا ہوگا کہ لوگ ہم سے نفرت کی بجائے محبت کریں اور ہمارے قریب آئیں ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہونا چاہئے قیامت کے دن آقا کریم کی زیارت کی خواہش کے لئے ہمیں کردار اور گفتار میں بھی مسلمان ہونا پڑے گا،

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل