حافظ محمد سلیم سواتی
جب پڑا وقت گلستان پہ تو خون ہم نے دیا
جب بہار آئی تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں
یوں توآزادی پاکستان کی تحریک1940ء کی قرار داد لاہور سے بیان کی جاتی ہے جب آل انڈیا مسلم لیگ کے منٹو پارک موجودہ اقبال پارک کے اجلاس میں الگ مملکت کا تصور بڑی بھرپور جدو جہد اور عزم کے ساتھ پیش کیا گیا لیکن بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے بقول ’’پاکستان کی بنیاد اس وقت پڑ چکی تھی جب سندھ کی سر زمین پر پہلے مسلمان نے قدم رکھا تھا‘‘اس لئے اس قول کی روشنی میں صرف 1940ء سے پاکستان کی آزادی کی تاریخ کوبیان کرنا تاریخ کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی ہو گی۔اس لئے زیادہ نہیں تھوڑا سا پیچھے لے جا کر،چند تاریخی یاداشتوں کے ساتھ علماء کرام کے کردار کو پیش کروں گا۔ 1600ء کے بعد انگریز بر صغیر میں داخل ہوا اور یہاں کی آزادی پر ڈاکہ ڈالا۔1803ء میں شاہ عبد العزیز ؒ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ صادر کیا اور تحریک شروع ہوئی اس تحریک کی کمان سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ نے کی اور بے شمار علاقوں میں انگریز کو شکست دی ،1831ء میں یہ دونوں حضرات بالاکوٹ کے مقام پر بے شمار رفقاء کے ساتھ شہید ہو گئے ۔1857ء جنگ آزادی کا اہم ترین معرکہ شاملی کے میدان میں لگا ،جہاں انگریز کو سخت جانی ومالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا اس معرکے کے سپہ سالار حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ تھے اور ان کے خاص رفقاء میں حافظ ضامنؒ ،مولانا قاسم نانوتویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ جیسے جلیل القدر علماء ،اس معرکے میں بے شمار علماء و طلبا شہید ہوئے اور مسلمانوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔مولانا فضل حق خیر آبادی ؒ ودیگر علماء کو فتویٰ جہاد کے جرم میں کالے پانی (جزیرہ انڈمان ) کی سزا دی گئی ۔مفتی کفایت علی کافی بدایونی ؒ کو جنگ آزادی کی پاداش میں تختہ دار پر لٹکادیا گیا۔1857ء کی شکست کے بعد مولانا قاسم نانوتویؒ اور دیگر اکابرین نے اسلامی روایات کے تحفظ اور ملک کی آزادی کی خاطر 1866ء میں قصبہ دیوبند میں دارالعلوم نامی علمی درسگاہ کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر آزادی کی کئی تحریکوں کا مر کز و سرچشمہ ثابت ہوئی ،اسی دارالعلوم دیو بند کے پہلے طالب علم شیخ الہندمولانا محمود حسن ؒ نے آزادی کے لئے تحریک ریشمی رومال کی بنیاد رکھی ۔1917 ء میں شریف مکہ کی غداری کی وجہ سے حجاز مقدس میں شیخ الہندؒ کو گرفتار کر کے مولانا عزیر گلؒ ، مولانا حکیم نصرت حسین ؒ ،مولانا وحید احمدؒ کے ہمراہ بحیرہ روم میں واقع جزیرہ مالٹا کی جیل میں جلاوطن کر دیا گیا۔1919ء میں مولانا محمد علی جوہرؒ نے انگریزوں کے خلاف تحریک خلافت شروع کی،مولانا شوکت علیؒ اور ابو الکلام آزاد ؒ جیسے عظیم قائدین بھی ساتھ تھے اور ہندوستان کے تمام اکابر علما ء نے سالہا سال کے مسلکی اختلافات کو نظر انداز کر کے تحریک خلافت میں شانہ بشانہ کام کیا۔1920ء میں گاندھی جی اور مولانا ابو الکلام آزادؒ نے غیر ملکی مال کے بائیکاٹ اور ترک موالات کی تجویز پیش کی جو بہت کار گر ثابت ہوئی ۔1921ء میں موہلا بغاوت،1922ء میں چورا چوری میں پولیس فائرنگ،1930ء میں تحریک سول نافرمانی،1942ء ہندوستان چھوڑو تحریک کے مظاہروں پر پولیس فائرنگ سے ہزاروں مسلمان شہید ہوئے ،اس کے علاوہ دوسرے مواقع پر اتنے مسلمان شہید ہوئے جن کی تعداد بیان نہیں کی جاسکتی،عام مسلمانوں کے علاوہ شہید علماء کی تعداد بیس ہزار سے لے کر پچاس ہزار تک بتائی جاتی ہے
وہ لوگ جنہوں نے خون دیکر پھولوں کو رنگت بخشی ہے
دو چار سے دنیا واقف ہے گم نام نہ جانے کتنے ہیں
پھر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ؒ صاحب اور سید ابو محمد دیدار علی شاہ ؒ نے مطالبہ پاکستان کو مدلل فتاویٰ کی صورت میں پیش کر کے تحریک آزادی پاکستان میں فیصلہ کن اور موثر کردار ادا کیا ،مولانا شاہ احمد نورانی ؒ کے والد ماجد عبد العلیم صدیقی قادری ؒ نے قیام پاکستان کے مطالبے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔مفتی محمد شفیع ،ؒ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ ،مولانا عبدالحامد بدایونیؒ ،مولانا عبدالستار خان نیازی ؒ نے مسلم لیگ کی کامیابی کے لئے نتیجہ خیز کاوشیں سر انجام دیں،اور جب مملکت ٖخداداد پاکستان 14اگست7 194ء بمطابق 27رمضان 1366ھ میں حقیقت بن کر دنیا کے نقشے پر ابھری تو قائد اعظم نے علماء کرام کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کراچی 15اگست 1947ء میں مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ سے جبکہ مشرقی پاکستان میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کے بھانجے مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کو تلاوت قرآن اور دعا کے بعد پاکستان کی پہلی پرچم کشائی کے اعزاز سے نوازا۔11 ستمبر 1948ء میں جب بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کا انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ نے ان کا نماز جنازہ پڑھایا اور تدفین تک سارے مراحل سر انجام دیے ۔مارچ 1949ء میں دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد کے عنوان سے قراداد منظور کی توان علماء کرام کی کوششوں سے اسلام کی بنیادی تعلیمات ،اساسی احکامات اور اہم جزئیات کو آئین کاحصہ بنایا گیا الغرض یہ علماء کرام ہی تھے جنہوں نے عوام کے اندر آزادی کے شعور کو اجاگر کر کے اور دو قومی نظریہ کی حقیقی تصویر پیش کر کے آزادی پاکستان کی تحریک کو کامیابی کا سہرا پہنایا،جنہوں نے آزادی کی خاطر اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کر کے قیامت تک آنے والوں کو یہ پیغام بزبان حال سنا دیا کہ
واقف تو ہیں اس راز سے دارو رسن بھی
ہر دور میں تکمیلِ وفا ہم سے ہوئی ہے
الحمد للہ ان اکابر علماء کے روحانی فرزند آج بھی اس کسمپرسی کے عالم میں،طعن وتشنیع کے تابڑ توڑ حملوں کے باوجود ملکِ عزیز پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت رکھتے ہیں ۔ان سب علما ء کی محبت کی ترجمانی خطابت کے بادشاہ حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کے گرجتے ہوئے الفاظ کے ساتھ کروں گا جو انھوں نے قیام پاکستان کے بعد کہے،کہ میری رائے کو خود فراموشی کا نام نہ دو ،پاکستان بننے پر بخاری کی رائے ہار گئی،پاکستان ہم نے ہزاروں بہنوں ،بیٹیوں کی عصمتیں لٹاکر اور لاکھوں کروڑوں نوجوانوں کا مچلتا ہوا خون پیش کر کے حاصل کیا ہے ،اس وطن کی خاک کا ہر ذرہ مجھے ہر عزیز چیز سے عزیز تر ہے اس کی سا لمیت اور تحفظ جزو ایمان ہے واللہ،باللہ،اب پاکستان نے جب بھی پکارا میں اس کی حفاظت کے لئے ہراول دستے کے طور پر پیش پیش رہوں گااس کی طرف جو آنکھ اٹھی ،پھوڑ دی جائے گی،جو ہاتھ اٹھے،کاٹ دیے جائیں گے میرا خون پہلے بھی تمھارا تھا ،اب بھی تمھارا ہے، پاکستان کی حفاظت کے لئے کروڑوں عطا اللہ شاہ بخاری قربان کیے جاسکتے ہیں‘‘ ۔ ہمیں اس ملک سے اس لئے محبت ہے کہ ہمارا ملک پاکستان نظریہ اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا کیونکہ علامہ اقبال کا نظریہ پاکستان دراصل نظریہ اسلام ہی تھا اس کا ثبوت یہ ہے کہ ملکِ پاکستان حضور انور ﷺ کی مملکتِ مدینہ کے سیاسی نقش قدم پر چلتا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے حضور ﷺ نے فرمایا اے لوگو لا الہ الا اللہ کہہ دو، کامیاب ہو جاؤ گے۔ادھر برصغیر سے بھی یہی آواز آئی پاکستان کا مطلب کیا ،لاالہ الااللہ۔اُدھر حضور ﷺ کو اپنے جانثاروں سمیت ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے جاناپڑا ۔اور اِدھر بھی بے شمار فرزندانِ توحید ہندوؤں کے مظالم سے تنگ آکر ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان چلے آئے ،،،اُدھر کفارِ مکہ مملکت مدینہ پر حملہ آور ہو ئے اور غزوۃ بدر میں شکست کھائی ۔۔۔اِدھر بھارتی سامراج نے طاقت کے نشے میں 1965 ء کو پاکستان پر حملہ کر دیا مگر منہ کی کھائی ۔اُدھر غزوہ احد میں مسلمانوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا اور عبد اللہ بن ابی اپنے ساتھیوں سمیت الگ ہو گیا ۔۔اور اِدھر ۷۱ء کی جنگ میں شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ کر دیا۔
غرض یہ کہ پاکستان کا مقصد محض ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام تھا جو صحیح طور پر اسلامی ریاست کہلانے کی حق دار ہو اور اسی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے علما و راہ نما اور عوام سب نے بے شمار قربانیاں دی تھیں۔ آخر میں وطنِ عزیز پاکستان کے لئے یہ دعا کہ
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو