مسیحا مار دیتے اور دوائیں جان لے لیتیں
نہیں تو پھر عزیزوں کی دعائیں جان لے لیتیں
خدایا صد شکر تیرا جو ستاری روا رکھی
چھپاتا خود میں باطن تو قبائیں جان لے لیتیں
خودداری ضمانت ہے جہاں میں سربلندی کی
میں کاسہ لیس ہوتا تو عطائیں جان لے لیتیں
اگر صیاد کے تیور پرندوں پر عیاں ہوتے
نشیمن میں پڑے بچوں کی مائیں جان لے لیتیں
جو پل دو پل کو یہ خلقت بشر کے طور پر چلتی
نگل جاتی زمیں سب کو ہوائیں جان لے لیتیں
تیرے پہلو سے اٹھ کر جب گھٹا دم تو خیال آیا
وائے حسرت وہیں تیری ادائیں جان لے لیتیں
اگر حبس محبت میں نا مرتے ہم تو بھی ارقم
رہائی مار دیتی یا سزائیں جان لے لیتیں