دنیا کو سب سے بڑا خطرہ نیوکلیئر ہتھیاروں سے ہے
جوہری ہتھیار صرف فوجی اہداف تک محدود نہیں بلکہ زیادہ تر عام شہری ان کا نشانہ بنتے ہیں
کسی چیز کو ایجاد کرنا اور انسانی تاریخ کو بدل کر رکھ دینا ایک انتہائی فرحت بخش احساس ہو تاہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ تمام ایجادات سے دنیا کو فائدہ ہی ہوا ہو کیونکہ کچھ ایجادات نے دنیا کو نقصان بھی پہنچایا ہے اور ان کے مؤجد اکثر اپنی زندگی میں اس بارے میں پچھتاوے کا اظہار کرتے رہے۔ آئن سٹائن جرمنی کا ایک یہودی تھا جو 17 اکتوبر 1933ء میں بھاگ کر امریکہ چلا گیا۔ 1938ء میں جب یہ دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان تسلیم کیا جا چکا تھا، اسے ایک غلط اطلاع ملی کہ جرمنی میں ہٹلر کے سائنسدان ایٹم بم بنانے کے حوالے سے ریسرچ کرنے میں مصروف ہیں جو امریکہ اور یورپ کی تباہی کا سبب بنے گا۔ اس پر آئن سٹائن نے ایک خط کے ذریعے امریکی صدر روزویلٹ سے درخواست کی کہ آپ تمام امریکی سائنسدانوں کو ایٹم بم کی تیاری پر لگا دیں اور زیادہ سے زیادہ یورینیم جمع کریں تا کہ جرمن سے پہلے پہلے یہ ٹیکنالوجی حاصل کی جا سکے۔ امریکی صدر نے نامور سائنسدانوں سے مشاورت کے بعد “مین ہٹن پراجیکٹ” لانچ کر دیا اور جرمنوں سے پہلے پہلے ایٹم بم بنانے کا ٹاسک دیا۔ بعد میں جب آئن سٹائن کو اس بات کا علم ہوا کہ اس کو ملنے والی اطلاعات غلط تھیں تو اس نے فوراً صدر روز ویلٹ کو دوسرا خط لکھا اور یہ اعتراف کیا کہ جرمنی میں ایٹم بم کے حوالےسے کسی قسم کی ریسرچ نہیں ہو رہی چنانچہ امریکہ میں بھی ایٹم بم بنانے کا سلسلہ روک دیا جائے۔ جب یہ خط وائٹ ہاؤس پہنچا تو اس وقت صدر روزویلٹ کا انتقال ہو چکا تھا اور یوں ایٹم بم بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ بالآخر امریکہ نے نیومیکسیکو میں 16جولائی 1945ءکی صبح مقامی وقت کے مطابق 5 بج کر 29 منٹ پر سب سے پہلا کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکہ کیا۔ ایٹم بم تیار کرنے کے اس منصوبے کو “مین ہٹن پراجیکٹ” کا نام دیا گیا تھا۔
ایٹمی دور کے باضابطہ آغاز کے ٹھیک 21 روز بعد جب دوسری جنگِ عظیم ابھی شباب پر تھی کہ 6 اگست 1945ء کو صبح آٹھ بج کرپندرہ منٹ پر امریکہ نے “لٹل بوائے” نامی پہلا ایٹم بم جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرادیا گیا۔ ہیروشیما، جاپان کے لیے فوجی اہمیت کا حامل شہر تھا۔ یہ ایک سپلائی اور لاجسٹکس بیس کے ساتھ اہم پورٹ بھی تھا جہاں جنگی بحری جہاز تیار ہوتے تھے۔ یعنی یہ شہر ایک کمیونیکیشن سنٹر تھا جہاں 40 ہزار فوجی مقیم تھے جو جاپانی بحریہ کو مدد فراہم کرتے تھے کیونکہ اُس زمانے میں اصل طاقت اور فتوحات کا محور بحریہ ہی تھی۔ ایٹمی دھماکے کے نتیجے میں ہیروشیما پر قیامت آگئی اور آسمان ٹوٹ پڑا۔ پلک جھپکتے ہی لاکھوں افراد موت کی آغوش میں چلے گئے اور لاکھوں ہمیشہ کے لیے اپاہج ہو گئے۔
اسی واقعہ کے تین روز بعد9 اگست 1945ء کو جاپان کا عظیم صنعتی شہر “ناگاساکی” دوسرے ایٹم بم کا نشانہ بنا۔ یہ جوہری بم جو کہ پلوٹونیم پر مشتمل تھا اور اسے “فیٹ مین” کا نام دیا گیا۔ جہاں ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر تین لاکھ افراد لقمہ اجل ہو گئے۔ اس بم نے ناگاساکی کا تقریبا 30 فیصد حصہ تباہ کر دیا جبکہ صنعتی علاقہ بالکل زمین بوس ہوگیا تھا۔ اس واقعے نے پوری انسانیت کے در و دیوار ہلا کر رکھ دیے۔ ایٹمی بمباری کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کے جسموں سے گوشت پگھلنے لگا۔ سوا نیزے پر سورج کے آ جانے والی گرمی کہ جس نے ہر شے کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ ہر طرف قیامت ہی قیامت برپا تھی۔ اس کو تاریخ میں سیاہ ترین دن سمجھا جاتا ہے۔ دو خونی ایٹمی حملوں کے بعد جاپان امریکہ کے سامنے جھک گیا۔ 15 اگست 1945ء کو جاپان کے شہنشاہ ہیروہیتھو نے اپنے ریڈیو خطاب میں ایک نئے اور انتہائی ظالمانہ بم کی تباہ کن طاقت کا حوالہ دیتے ہوئے دوسری جنگ عظیم میں اپنے ملک کے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا۔ اس وقت دنیا کو معلوم ہوا کہ انسان کس قدر خوفناک تباہی والے ہتھیار ایجاد کر چکا ہے۔ آئن سٹائن مرتے دم تک اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس کرتے ہوئے اپنے خط کو زندگی کی سب سے بڑی غلطی کہتا رہا۔ وہ طبعاً امن پسند تھا اور اسے یہ احساس تھا کہ ایٹمی قوت کا تصور خود اس کے ایک مقالے سے پیدا ہوا تھا۔
آج دنیا بھر میں 22 ہزار سے زائد ایٹم بم موجود ہیں اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اگر یہ ایٹم بم پھٹ جائیں تو صرف گیارہ منٹ میں پوری دنیا ختم ہو جائے گی اور دنیا میں کوئی انسان، جانور، پرندہ اور درخت نہ بچے گا۔ پوری زمین آگ کا ایک گولہ بن کر رہ جائے گی۔ جوہری ہتھیاروں کی تباہ کاریاں سب پر عیاں ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ عالمی امن اور انسانی زندگی کے بقا کے لیے ان ہتھیاروں سے بچنے کی کوئی راہ نکالی جائے یا ایسے قوانین بنائے جائیں کہ ان کے استعمال کوروک دیا جائے۔ اس صورتحال کے پیش نظر عالمی سطح پر شعور بیدار کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے 2 دسمبر 2009 ء کو نیوکلیئر تجربات کے خلاف عالمی دن منانے کی منظوری دی گئی۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 29 اگست کو نیو کلیئر تجربات کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد لوگوں کو جوہری ہتھیاروں کی تباہ کاریوں سے آگاہی، عالمی سطح پر امن کے فروغ اور پوری دنیا میں بدامنی، جنگ و جدل اور ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کے لیے اقدامات اٹھانا ہے تا کہ دنیا کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ تر بنایا جا سکے۔ جوہری دھماکوں اور تجربات کے خلاف عالمی دن منانے کی تجویز قازقستان نے پیش کی تھی کیونکہ 29 اگست 1949ء کو روسی سوشلسٹ ریاستوں ( جسے عام طور پر سوویت یونین کے نام سے جانا جاتا ہے) نے پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔ جہاں ایٹمی تجربہ گاہ کی حدود سے باہر جانے والے زمینی اور فضائی دھماکوں کے بادلوں نے قازقستان کے مشرقی حصے میں تابکاری آلودگی شروع کردی۔ اسی لیے ہر سال 29 اگست کو جوہری تجربات کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا سمیت آٹھ ایٹمی طاقتیں موجود ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے نیوکلیئر ہتھیاروں کا 90 فیصد حصہ صرف دو عالمی طاقتوں کے پاس ہے۔ ان میں پہلے نمبر پر امریکہ اور دوسرے نمبر پر روس ہے جبکہ دیگر ممالک میں فرانس تیسرے، چین چوتھے، برطانیہ پانچویں، پاکستان چھٹے، بھارت ساتویں، اسرائیل آٹھویں اور جنوبی کوریا نوویں نمبر پر ہے۔ یہ واضح رہے کہ دنیا میں کُل 8 ایٹمی قوتیں ہیں تاہم اسرائیل نے کوئی ایٹمی تجربہ نہیں کیا لیکن وہ بھی بھرپور ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک ہے۔ عالمی سطح پر ایٹمی ہتھیاروں کی بڑھتی ہوتی تعدادکو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ نیو کلیئر طاقت رکھنے والےتمام ممالک کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیےورنہ دنیا خطرات کا شکار رہے گی۔ لیکن افسوس کہ آج یہ ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی جد و جہد میں مصروف ہیں۔ ایٹمی بمباری کے نتیجے میں ہیروشیما اور ناگاساکی شہر کے مکین جس اذیت اور کرب سے گزرے خدا کرے ایسی تباہی دنیاکی کسی اور بستی کے مکینوں کو نہ دیکھنی پڑے۔