146

سیلاب۔۔۔۔۔۔۔قدرتی آفت یا ہماری نا اہلی /تحریر/عبدالرؤف ملک (کمالیہ)

سقوطِ بغداد اسلامی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ ترین سانحہ تھا جس نے آج تک امتِ مسلمہ کو دوبارہ اپنے پاؤں پہ کھڑا نہیں ہونے دیا یہ بدترین سانحہ اس وقت پیش آیا جب ایوانوں میں یہ فضول بحث جاری تھی کہ “کوا حلال ہے یا حرام” اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ ہلاکو خان ایک مہلک سیلاب کی طرح آیا اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجاکر رکھ دی اور مسلمانوں کو سنبھلنے کی مہلت بھی نہیں ملی۔ آج بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں ہے پاکستان کے ایوانوں میں ہماری اشرافیہ عوام الناس کے مسائل سے بےخبر اقتدار کی جنگ میں ایک دوسرے کی کردار کشی میں الجھی ہوئی ہے اور سیلاب کا عفریت طوفانِ نوح کی طرح غریب عوام پہ ٹوٹ پڑا اور انکو ایسے حالات سے دوچار کردیا کہ جس کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ پچھلے سال 2022 میں ہونے والی سیلاب کی تباہ کاریوں کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے ابھی لوگ اس سے ہونے والے نقصانات سے سنبھل نہیں پائے تھے کہ ملک کے بیشتر دریا پھر سے بپھر چکے ہیں۔ اس وقت پاکستان کا تقریباً پچاس سے ساٹھ فیصد علاقہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے متاثرین اس وقت نہ زندوں میں ہیں نہ مُردوں میں ان لوگوں کی کسمپرسی کا اندازہ لگانا ممکن نہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے آشیانے بکھرتے اور اپنے گھر اجڑتے دیکھے۔ انکی آنکھیں یقیناً پتھرا گئی ہونگی جن کے پاس اپنے پیاروں کو دفن کرنے کیلیے جگہ تک میسر نہیں اور مجبوراً اپنے جگر گوشوں کو پانی کی ظالم لہروں کے سپرد کرنا پڑا ہوگا۔ ان حالات کو دیکھ کر آنسو گلے میں اٹک کر رہ جاتے اور ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں کہ شاید ربِ کائنات ہم سے ناراض ہے جو اس طرح کا عذاب ہماری قوم پہ نازل ہوتا ہے لیکن پھر ذہن میں اس پاک پروردگار کی انسان سے محبت جو ستر ماؤں سے زیادہ ہے آڑے آجاتی ہے کہ ہمارا رب ایسا نہیں ہے جو بات بات پہ ناراض ہوکر ہمیں عذاب سے دوچار کر رہا ہے وہ تو غفورورحیم ہے اگر ایسا ہوتا تو یقیناً اس عذاب کا شکار وہ غریب جھونپڑیوں میں رہنے والے محنت کش لوگ ہرگز نہیں ہوتے جو اپنی زندگی کی گاڑی بمشکل دھکیل رہے ہیں بلکہ اس عذاب کا شکار وہ لوگ ہوتے جو شراب و کباب میں دھت، جنت اور جہنم سے بے نیاز، تکبر اور رعونت سے وقت کے فرعون بنے بیٹھے ہیں جو نہ تو انسانوں اور جانوروں میں کوئی فرق سمجھتے ہیں اور نہ ہی انکے پیٹ دنیاوی دولت سے بھرتے ہیں میرے خیال میں یہ تصور ہی غلط ہے جو ہمارے ذہنوں میں بھرا جا رہا ہے کہ جب بھی کوئی آفت یا مصیبت آئے اسکو خدا کی ناراضگی سے منسوب کرکے اپنا دامن محفوظ کرلو اور اپنی سُستی اور نا اہلی پہ پردہ ڈال لو۔ اس خدائے بزرگ وبرتر نے انسان بالخصوص ہمارے منتظمین اور حکمرانوں کو بہت سے اختیارات دیے ہیں جن کو بروئے کار لا کر ان آفات سے بچا جاسکتا ہے تو پھر کیوں اس سے بچاؤ کی کوشش نہیں کی گئی؟ پچھلے چند سالوں میں ملک پانی کی قلت سے دوچار رہا تو ہم نے یہ سمجھ لیا کہ اب دریاؤں میں پانی نہیں آئے گا اور ہمارے مقتدر حلقوں نے اسکے تدارک کیلیے کوئی مناسب اقدامات نہیں کیے حالانکہ ڈیمز بناکر نہ صرف سیلاب کی شدت کو کم کیا جاسکتا تھا بلکہ کئی مہینوں تک اس پانی کو مصرف میں لاکر الیکٹریکل انرجی بھی حاصل کی جاسکتی تھی۔ پانچ چھ لاکھ کیوسک پانی کو سنبھالنا کوئی ناممکن بات نہیں ہے دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جو پندرہ لاکھ کیوسک سے زیادہ کے سیلاب کو بڑی دانشمندی اور اچھی مینیجمنٹ سے کنٹرول کرلیتے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک چین کو ہی دیکھ لیں انکو بھی سیلاب کا سامنا ہوتا ہے لیکن مجال ہے کہ کبھی کوئی ایک جان بھی ضائع ہوئی ہو انکی انتظامیہ اور عوام بروقت اقدامات کرکے نہ صرف لوگوں کو متاثرہ علاقوں سے نکال لیتے ہیں بلکہ انکو ادویات، رہائش اور راشن کی کوئی کمی نہیں ہونے دیتے اور نہ ہی انہیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے یا امدادی سامان کا انتظار کرنے کی نوبت پیش آتی ہے۔ ادھر ہمارے یہاں حالت یہ ہے کہ ہمارے انتظامی اداروں کی کارکردگی سوائے ضائع ہونے والی جانوں کی تعداد شمار کرنے کے بالکل زیرو ہے۔ اس وقت پانی ہم سے سنبھالا نہیں جارہا اور تین چار ماہ بعد ملک پانی کی قلت سے دوچار ہوجائیگا جس کی ذمہ داری ہم قدرت پہ ڈال کے خشک سالی کا بہانہ بنا کر خود کو مطمئن کرلیں گے۔ خدارا آنکھیں کھولیے ملک کو خشک سالی اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کیلیے پانی کو ذخیرہ کرنے کے پراجیکٹ شروع کیجیے ڈیمز بنا کے پانی کی قلت سے بچنے کیلیے اقدامات کیجیے اپنے لیے نہیں تو کم ازکم آنیوالی نسلوں اور اس وطن کی سالمیت کیلیے ہی سہی کچھ تو دوراندیشی سے کام لیجیے جن لغزشوں اور کوتاہیوں کا ارتکاب ہم سے ہوچکا ہے اگر ہم نے ان سے سبق نہ سیکھا اور اسکا مناسب تدارک نہ کیا تو پھر یہ کوتاہیاں ناقابلِ تلافی جرم بن جائیں گی اگر جنابِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی سلطنت میں پیاس سے مرنے والے کتے کی بابت پریشان ہوسکتے ہیں تو کیا سیلاب کی نذر ہونے والے بے گناہوں کا خون ہمارے حکمرانوں کی گردن پہ نہیں ہوگا؟ آخر کب تک ہم ان آفات کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے ساتھ منسوب کرکے بیٹھے رہیں گے۔ ان حالات اور آزمائش کی اس گھڑی میں ہماری عوام پہ بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہمیں اخوت، بھائی چارہ اور انسانی ہمدردی جیسی اقدار کو فروغ دہنا چاہیے یہی وہ خوبیاں ہیں جو ہمیں دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہے۔ پاک فوج اور مختلف ناموں سے بنی فلاحی تنظیموں کے ریسکیو آپریشنز کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی چاہیے کہ اپنے متاثرین بھائیوں کیلیے عطیات، راشن، ادویات، کپڑے اور ضرورت کا دیگر سازوسامان فراہم کرنے کیلیے آگے بڑھیں اور اس کارِ خیر میں دل کھول کے حصہ لیں۔ مالکِ کون ومکاں سے دعا ہے کہ وہ سیلاب متاثرین کی مدد فرمائے اور آزمائش کی اس گھڑی میں ہمیں ثابت قدم رکھے اور ماضی سے سبق سیکھ کر ہمیں اپنی کوتاہیاں دور کرنے اور اقتدارواختیارات کو عوام کی فلاح و بہبود کیلیے استعمال کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں