81

جہاد و جمہوریت/تحریر/ عبدالوہاب اشرف جٹ

ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جدھر برائی کو حق اور اچھائی کو باطل سمجھا جاتا ہے یہ ستم آج کی تاریخ کا نہیں مؤرخ بہت پہلے بھی ایسے تھا بتاتے ہیں کل جو ہوا سبھی نے دیکھا اک سیاسی جماعت جسے میں اور بشمول اک دانشور طبقہ فتنوں کی جماعت و گڑھ کہتے ہیں اس کے صدر یا بانی کی گرفتاری کا عمل سامنے آیا جس میں اسے رینجرز کے جوان ایسے پکڑ کر لے جارہے ہیں کہ دل خوش ہوا دیکھ کر ایک نے شانے سے پکڑ رکھا تھا اور ایسے ہی پورا جکڑ رکھا تھا دکھنے میں ہی معلوم ہو رہا تھا کہ کوئی مجرم ہے اس کی گرفتاری پہ ماتھا ٹھنکا اور ماضی کا اک دلسوز واقعہ یاد آیا جب ایک دہشتگرد جماعت و تنظیم جماعت ا ل د ع و ہ اور ل ش ک رِ ط ی بہ کے امیر و امیر ا ل م ج ا ھ د ی ن و محترم جناب حافظ محمد سعید احمد حفظہ اللہ تعالیٰ کی گرفتاری کا عمل عملی جامہ پہن رہا تھا اس وقت یہ عمل علمی جامہ پہنتے ہوئے کافی رازوں اور رازدانوں اور سیاستدانوں و ملا جات کے پاجامے اتار چکا تھا جو یہ ڈھونگ رچاتے ہیں کہ ہم ہی دین کے محافظ اور پاکستان کے محب ہیں وغیرہ وغیرہ۔امیر ا ل م ج ا ھ د ی ن کی گرفتاری کا لائحہ عمل طے پا گیا تو تھا ہی مگر جب وہ قانون کے رکھوالے یہ فورسز انہیں گرفتار کرنے گئی مجال ہے کسی نے ہاتھ تک لگایا ہو جناب خود ساتھ چل دیے جیسے سسرال جا رہے ہوں، اور پھر اپنے کارکنان کو واضح بھی کہتے رہے کہ ہمیں اپنے رویے سے ثابت کرنا ہے کہ ہم ہی محب پاکستان ہیں اور انہوں نے کر کے بھی دکھایا میرا ماننا و کہنا ہے کہ ابھی تک جتنی بھی تنظیمیں بنی میں کسی کے بارے میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ ملک و ملت اور اسلام کی سربلندی کے لئے کوشاں ہوں سوائے جماعت ا ل د ع و ہ کے ان کے رویّے نے بھی چیخ چیخ کر بتلایا کہ دیکھو ہم ہیں اہل حق آؤ دیکھو ہم ہیں باطل کا سرقلم کرنے والے مجھے ادھر ایک شعر یاد آ گیا ہے تقریباً دو ہزار اٹھارہ کے الیکشنز میں وہ پہلی بار پڑھا تھا جب جماعت ا ل د ع و ہ کے زیر سایہ و جماعت ا ل د ع و ہ کا دوسرا رخ اک سیاسی جماعت کے بینرز ہمارے علاقے کے امیر جناب ماسٹر ثناءاللہ صاحب مرحوم (اللہ ان کی قبر پر کڑوروں رحمتیں نازل فرمائے آمین ثم آمین) نے لا کر دیے اور کہا بیٹا عبدالوہاب انہیں آویزاں کردو اور ساتھ میں پرچم بھی دیے ان بینرز میں جو درج تھا وہ اب مندرجہ ذیل ہے۔کہ”اے قوم ہمیں پہچانوں اس ملک کے پاسباں ہیں ہمکھٹکتا کفر کی آنکھ میں ہے جو وہ کارواں ہیں ہم”آج کل کے شاعرانہ دور میں مجھے حاجت نہیں محسوس ہو رہی کہ اب تشریح بھی کروں کیونکہ آج کل کے دور میں ہر بندہ خود کو اہل علم اور علم کا وارث سمجھتا ہے اور یہ جہالت کی واضح مثال ہے ۔جناب والا پھر میں نے دونوں کو ایک دوسرے سے موازنہ کروا کے اس خود تخیلاتی دنیا میں کر کے دیکھا گرفتاری میں عزت مجاھد کس ملی اور لعنت اک کذاب کو اسی طرح کارکنان کے رویّے کو جب دیکھا تو مجھے جماعت ا ل دع و ہ کے کارکنان صابر و شاکر ملے اور اس کذاب معزرت خواہ ہوں عمران کے کارکنان مجھے گھٹیا اور جاہل ملے اور ملک میں بدامنی پھیلانے ملے ۔ پھر میں نے دونوں جماعتوں کے کارکنان کے علم اور تعلیم کو پرکھا تو مجھے جماعت ا ل د ع و ہ کے کارکنان ٪90 حافظ قرآن اور ٪98 پانچ وقت کے نمازی اور ٪100/100 محب وطن ملے اور اسلام کے خیر خواہ اور اسلام کے داعی ملے پھر تحریک ا ن ص ا ف کے کارکنان دیکھے تو مجھے آٹے میں نمک دینی تعلیم والے ملے اور آٹے میں نمک ہی اسلام پسند اور اسلام پر عملدرآمد کرنے والے ملے اور بس منہ سے اسلام والے بنے اور ملے ان کے کردار کو دیکھ کر نہیں لگا ۔پھر میں نے دونوں کا موازنہ سربراہان کی گرفتاری کے بعد کارکنان کے رویّے سے کیا تو مجھ جماعت ا ل د ع و ہ کے کارکنان صابر و شاکر ملے انہوں نے سربراہ و اپنے امیر کی گرفتاری کے بعد کوئی کسی قسم کا ملک و ملت کو و قوم کو و کسی بھی پاکستانی اثاثے کو نقصان نہیں پہنچایا اور اپنے امیر کی بات مانتے ہوئے ملے دوسری جانب گرفتاری ہوتے ہی سوات موٹر وے کو جلادیا و دیگر توڑ پھوڑ اور ٹریفک بند کرنے والے اور پولیس کی گاڑیاں جلانے اور اک خانہ جنگی کرنے والے ملے اور یہ درس انہیں انہیں کی جماعت تحریک ا ن ص ا ف کی قیادت نے کہا بھائی اس کے بعد دونوں جماعتوں کے سربراہان کو پرکھا تو مجھے تب بھی امیر ا ل م ج ا ھ د ی ن جناب محترم حافظ محمد سعید احمد حفظہ اللہ تعالیٰ ہی برتر اور برتری سے اہل حق دکھے اور عمران خان اور اس کی جماعت مجھ بدتر و بدترین مثال بنی ملی آگے میں اک بات واضح کرتا چلوں اک قلم والا کسی بھی جماعت کا نہیں ہوتا بس سچ لکھتا ہے اب اگر کسی کو میری بات بری لگے اور مجھے خان کا دشمن سمجھے یاں فلاں فلاں تو اس کی اپنی نااہلی و جہالت ہوگی میرا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے اور بس حق لکھتا ہوں البتہ اگر ان میں سے کسی کا حق نا بیان کیا ہو یاں اچھائی نا بیان کی ہو تو بتائیے گا لازمی۔آج کا کالم ہوتا ہے اختتام پذیر اور آخر میں اک بات کہہ کر اجازت چاہوں گا کہملے کی اذان اور اور مجاھد کی اذان اور یہ محاورہ تو سبھی نے سنا ہوگا خیر آج مجاھد اور سیاسی ہی بات ہورہی تھی تو مجاہد ہی نمبر لیے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں