قلب و جگر ہے زخمی ایسا ہے تازیانہ
بجلی کے ان بلوں سے ہلکان ہے زمانہ
ہر موڑ پر کھلا ہے عامل کا استانہ
پھونکوں سے چل رہا ہے دنیا کا کارخانہ
دشمن کی دشمنی سے ہم بے خبر تھے لوگو
انداز اس کے سارے لگتے تھے دوستانہ
حالات کے بھنور میں پھنستے ہی جارہے ہیں
پھر بھی چلن ہمارا مدت سے صابرانہ
اخلاق کی حدوں سے آگے نکل گئے ہیں
بس نام کے ہیں مفتی ہر کام عامیانہ
مہنگائی روکنے کے وعدے ہیں سب سیاسی
فاقوں مرے ہے مفلس ان کا ہے کارنامہ
اے حاکموں وطن کے روتی بلکتی پبلک
بس اک نظر کی طالب ہو نظر_منصفانہ
فوجی جواں وطن کے ہمت عزیز جیسی
منہاس جیسی رکھنا نظریں بھی طائرانہ
مکے کی سر زمیں پر سجدے کرے حمیرا
خواہش ہے اپنے دل کی برسوں سے زاہدانہ