1: اظہر حسین نے ایک بڑی یونیورسٹی سے بی ایس آئی ٹی کیا ، تعلیم کے دوران اخرجات پورے کرنے کے لیے شہر کے بڑے ریسٹورنٹ پر کام کرتے رہے ، یہ تجربہ ان کے لیے خوشگوار ثابت ہوا ، اس کام کے دوران انہوں نے ڈگری مکمل کرنے کے بعد اپنا ہوٹل بنانے کا سوچا ، مگر اس کے لیے زیادہ رقم چاہیے تھی ، جوکہ اظہر کے پاس نہیں تھی ، اس نے کچھ نیا کرنے کا ارادہ کیا ، بہت غور و فکر کرنے کے بعد بریانی بنا کر فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ، اور اس کو فروخت کرنے کے لیے نیا آئیڈیا اپنایا کہ سبزی فروش اور آئس کریم والے کی طرح بریانی بھی گلی گلی پہنچائی جائے ،اس کے لیے اس نے دو عدد سپیشل سائیکلیں تیار کروائی ، جس پر بریانی فروخت ہونے لگی ، کام بہت اچھا چلنے لگا، اظہر حسین بتاتے ہیں کہ اب اسی بزنس کی آمدنی سے اگلے مہینے دو مزید فوڈ کارڈ لگائیں گے اور اس کو ان شاء اللہ لاہور کی سب سے بڑی بریانی چین بنائیں گے ۔
2: حسن نواز نے ایم بی اے کیا اور اس کے بعد ایک کمپنی میں جاب کرنے لگے ، لیکن کمپنی نے دو سال میں صرف پانچ ہزار اضافہ کیا ، حسن نے اس کے علاوہ بہت ساری کمپنیوں میں انٹر ویو دیا ، مگر کہیں سے بھی مثبت جواب نہ ملا ، ایک دن حسن کو بھوک لگی تو پاس ریڑھی سے دال چاول کھائے ، تو سوچا کہ کیوں نہ میں بھی اس کام کو شروع کروں ، حسن نے پورے لاہور سے دال چاول کھائے ، تاکہ وہ ان سب سے مختلف طرح کا ذائقہ دے ، سو اس نے مٹکا دال چاول بنانے کا فیصلہ کیا ، اور تمام چیزوں کے لیے مٹی کے برتن استعمال کرنے لگا ، حسن کہتے ہیں کہ پہلے دن سے ہی بہت اچھا تجربہ رہا اور ایک مہینے میں ہی اپنے پاوں پر کھڑا ہوگیا ۔
3: جبران احمد خان ایم بی اے کرنے بعد ایک اچھی جاب کرنے لگے ، اس کمپنی کے ساتھ پانچ سال وابستہ رہنے کے بعد دوسری کمپنی چلے گئے اور اگلے تین سالوں میں پانچ جگہ پر جاب کی اور اس کو زندگی کا سب سے برا تجربہ کہتے ہیں ، انہوں نے تمام جگہ سے باس کے نامناسب رویہ کی شکایت کی ، جاب سے تنگ آکر اپنا کام کرنے کا ارادہ کیا ، بریانی لگانے کا فیصلہ کیا ، گھر والوں کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو سبھی نے مخالف کی ، والد نے کچھ رقم دینے کا کہا کہ کچھ بڑا کرلو تو حسن نے کہا کہ میں اپنے آپ کو مٹی سے کھڑا کر کے بڑا بنانا چاہتا ہوں ، لہذا بریانی کو کار پر آ کر فروخت کرنے لگا ، لوگ اس کی بریانی کو پسند کرتے ہیں اور وہ اپنے کام سے بہت خوش اور مطمئن ہے۔
یہ تینوں کہانیاں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں ، اس میں یہ تمام نوجوان باوجود تعلیم یافتہ ہونے کے اور اچھی پوسٹوں پر کام کرنے کے اپنی جاب سے مطمئن نہیں تھے ، اور سبھی نے چھوٹے نظر آنے والے کاروبار سے آغاز کیا اور اپنی اس محنت سے مطمئن ہیں ،لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس طرح سے آغاز کرنا انتہائی ہمت اور حوصلہ کا کام ہے ، اور اس کی وجہ بڑی واضح ہے کہ اس میں بہت بڑا رسک ہے ، اور اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ جو شخص رسک لیتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے ۔
ہماری ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے ، بہت سارے کاربار بندہونے کی وجہ سے بے روزگاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ، اور المیہ یہ ہے کہ بے روزگاری میں سب سے زیادہ شرح نوجوانوں کی ہے جو کئی جگہوں پر انٹرویو دینے کے بعد جواب کے انتظار میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع کر رہے ہیں ، اور سبھی ڈریم جاب کے علاوہ کسی متبادل پوسٹ کے لیے تیار نہیں ہیں ، آج سبھی کمپنیاں ڈگری کے ساتھ فیلڈ میں تجربہ بھی دیکھتی ہیں ، جو کہ نوخیز کے پاس نہیں ہوتا ، جس کی وجہ سے ہمارا بہت بڑا سرمایہ اور مستقبل داو پر لگا ہوا ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ ایسے ڈگری ہولڈرز کو چاہیے کہ اپنے کام کا آغاز کریں ، اور اس کے لیے گھر والوں اور معاشرے والوں کو اس کا ساتھ دینا چاہیے ، اس کی مدد کرنی چاہیے ناکہ حوصلے شکنی کرنے چاہیے ، کیونکہ ہم یہ سوچتے ہیں کہ جس نے تعلیم حاصل کی ہے وہ جاب ہی کرئے گا ، وہ کبھی بزنس نہیں کرسکتا اور یہی سوچ ہماری بے روز گاری میں سب سے اضافہ کا سبب ہے ۔
