98

مہنگائی, مشکل مالی حالات اور نوجوانوں کے کرنے کے کام/تحریر/حفیظ چودھری

موجودہ ملکی حالات بڑھتی ہوئی مہنگائی بے روزگاری اور آئے روز کی معاشی مشکلات سے نپٹنے کے لیے نوجوانان پاکستان کو کچھ تجاویز اور نصیحتیں ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر وہ ملک عزیز پاکستان کو اس بھنور سے نکال سکتے ہیں۔

آج ملک عزیز پاکستان اپنی تاریخ کے شدید ترین سیاسی و معاشی بحرانوں سے نبردآزما ہے۔ حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ غربت، بے روزگاری اور معاشی بدحالی کے سبب لوگوں میں خود کشی کا ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ کہیں والدین اپنے بچوں سمیت زہر کھا رہے ہیں، تو کہیں نہر میں چھلانگ لگا رہے ہیں۔ کہیں پنکھوں سے جھول رہے ہیں، تو کہیں خود کو شوٹ کر رہے ہیں۔ روپیہ تاریخ کی کمزور ترین پوزیشن پر چلا گیا ہے, برآمدات میں کمی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ ایسے میں سست ترین معیشت اور ٹیکسز آمدنی میں بھی تاریخی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
مہنگائی کے اس طوفان سے ملک کا نچلا طبقہ بلبلا اٹھا ہے۔ بجلی اور گیس کے بھاری بلوں اور پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے۔ چوک، چوراہوں اور مشہور شاہراہوں پر عوامی احتجاج دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔
گذشتہ چند سالوں سے پاکستان کی معیشت مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ اب اس کا شمار ان ممالک میں ہونے لگا ہے جو معاشی طور پر خدانخواستہ دیوالیہ ہونے کے راستے پر گامزن ہیں۔ اس کی ایک مثال موجودہ دور میں سری لنکا کی ہے، جہاں معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے بعد حالات حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں۔ افراتفری کا عالم ہے، لوگوں کو اشیائے خورد نوش کی قلت اور شدید قحط کی سی صورت حال کا سامنا ہے۔ آج پاکستان کو بھی اس تباہی کے دہانے تک پہنچانے میں کسی اور کا نہیں بلکہ ہماری سیاسی جماعتوں سمیت اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی کا ہاتھ ہے۔
پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک میں فرق یہ ہے کہ انکے معاشی مسائل کی وجہ معدنی وسائل کا فقدان یا پھر انکی جغرافیائی حیثیت ہے۔ مگر ہمیں تو بلاشبہ قدرت نے معدنی وسائل سے مالامال کر رکھا ہے۔ سونا، چاندی، گیس اور تیل جیسی دیگر متفرق قیمتی دھاتوں سے ہمارے پہاڑ لبا لب بھرے ہوئے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اس سب کے باوجود آج ہمارا کشکول دنیا میں ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ ہم در در سے بھیک مانگ کر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جو اب دنیا کی نظر میں ایک تماشا بن کر رہ گیا ہے۔
اس سب کے باجود ہمارے پاس امید کی ایک کرن اس ملک کے نوجوان طبقے کی صورت میں موجود ہے۔ اور بلاشبہ اس ملک کا نوجوان ہی آج اس کڑے وقت میں اپنے ملک و قوم کو اس مشکل صورت حال سے نکالنے کی ہمت رکھتا ہے۔ مایوسیوں اور نا امیدیوں کی منجھدھار سے ملکی کشتی کو نکال کر ساحل کنارے لگا سکتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا اس چیز پر ایمان ہے کہ ایک انسان تب تک نہیں ہارتا جب تک وہ خود کو کمزور سمجھ کر شکست تسلیم نہ کر لے۔ بلاشبہ اس ملک کا نوجوان شکست تسلیم کرنے والا نہیں ہے۔ وہ ایسے حالات میں لڑنا جانتا ہے۔ بس ہمیں ان نوجوان میں چھپی ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ان کا اصل کام اور قومی فریضہ سمجھانے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ ہمارا نوجوان دنیا سے کسی صورت پیچھے نہیں ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خود اعتمادی، آگے بڑھ جانے کی جستجو، نیک مقصد اور مضبوط ارادے ہوں تو ہماری نا امیدی کبھی بھی ہم پر حاوی نہیں ہو پائے گی۔ اسی طرح ہماری زندگی خوشگوار ماحول میں کامیاب قابل اعتماد و قابل رشک بن جائے گی جس کی اہمیت کا شکرانہ ہم تاحیات اپنے رب کو سجدہ کی صورت میں ادا کرتے رہیں گے ۔ بحثیت مسلمان ہمیں واضح طور پر احادیث رسول ﷺ میں بھی نوجوانوں کے کردار اور ان کے لیے رہنما اصول کثرت سے ملتے ہیں۔
موجودہ ملکی حالات بڑھتی ہوئی مہنگائی بے روزگاری اور آئے روز کی معاشی مشکلات سے نپٹنے کے لیے نوجوانان پاکستان کو کچھ تجاویز اور نصیحتیں ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر وہ ملک عزیز پاکستان کو اس بھنور سے نکال سکتے ہیں۔
1: نوجوانوں کو فوری طور پر معاشرے میں پھیلتی مایوسی کی فضا کو کم کرنا ہوگا۔ اس کے لیے سنجیدہ گفت و شنید اور اقدامات کی ضرورت ہے، گلی محلوں، بازاروں الغرض ہر چھوٹے بڑے عوامی مقام پر پرامید گفتگو کو پروان چڑھانا ہوگا۔ اپنے قریبی حلقہ احباب میں معاشرے کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہوگا۔ نوجوان طبقے کی ذمے داری ہے کہ وہ ڈپریشن میں جاتے معاشرے کو حالات کے بہتر ہونے کی امید دلائیں، اپنے قرب و جوار میں موجود غرباء کی حتی الامکان داد رسی کریں، نجی سطح پر باہمی تعاون کے ذریعے آس پڑوس کے غربا پر نظر رکھیں۔ بروقت ان کی امداد کریں۔ تاکہ خودکشیوں کا بڑھتا رجحان کم ہو سکے۔
2: نوجوانوں کے لیے مٹی سے وفاداری اس وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔ اگرچہ یہ تسلیم ہے کہ ملکی حالات بہتر نہیں، معاش و روزگار کا فقدان ہے، لیکن بہ ہر طور یہ ملک ہمارا ہے، اس ملک نے ہمیں اور ہمارے آباؤاجداد کو پالا ہے۔ آج تک ہم نے اس ملک کو استعمال کیا ہے۔ آج جب اس ملک کو ہماری ضرورت ہے تو چپکے سے بیرون ممالک کا ویزہ لے کر نکل جانا کہاں کی عقل مندی اور وفا شعاری ہے؟ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں ملک میں رہتے ہوئے استعمال کریں، اور ان صلاحیتوں کی بدولت ملک و قوم کی خدمت کے لیے پرعزم ہوں، تاکہ معاشرے میں حب الوطنی کے جذبات کو فروغ ملے اور ان مشکل حالات میں مملکت خداداد پاکستان کو استحکام نصیب ہو۔
3: نوجونواں کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام تر غیر ضروری سرگرمیوں کو ترک کرتے ہوئے تعلیم کے میدان میں متحرک ہو جائیں، نجی زندگی کی مصروفیات کو کم سے کم تر کر دیں۔ روایتی مضامین سے ہٹ کر مصنوعی ذہانت، سائبر سیکورٹی، آئی ٹی، سافٹ ویئر انجینئرنگ، آرٹیفیشل پراڈکشن، اور ان جیسے جدید علوم کی جانب بھی قدم بڑھائیں۔ آج کے دور میں ان علوم میں قدم جمانے والا ہی اگلے 20 سال بعد اپنے پاؤں پر کھڑا رہ سکے گا۔ صرف یہی نوجوان اپنے ملک کی خدمت کر سکیں گے اور معاشی حالات کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔
4: نوجوان کو چاہیے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی سرگرمیوں کا آغاز کریں۔ اپنے دوست و احباب کے ساتھ مل کر چھوٹی چھوٹی انجمنیں بنائیں، صاحب استطاعت افراد اپنی بساط کے مطابق رفاہی فنڈز فراہم کریں، جو بعد ازاں باہمی مشاورت سے مختلف رفاہی سرگرمیوں، خصوصاً تعلیم، صحت اور خوراک میں استعمال ہو سکیں۔
5: نوکری کے بجائے کل وقتی یا نوکری کے ساتھ اپنے جزو وقتی کاروبار کی بنیاد ڈالیں، روانہ کی بنیاد پر اسے وقت دیں، ڈیجٹل مارکیٹنگ کے ذریعے اسے پروموٹ کریں، تاکہ آنے والے وقت میں آپ کے پاس مستقل ذریعہ آمدن ہو۔
6: اسلامی تعلیمات اور اپنے اسلاف کی تاریخ سے رشتہ مضبوط کیا جائے، ان کے کارناموں کے پیچھے چھپی صلاحیتوں کو سامنے لایا جائے اور پھر نوجوان ان صلاحیتوں کو اپنانے کی کوشش کریں۔ اسلامی تعلیمات میں ذہنی سکون اور معاشی حالات کی درستی کے بے شمار طریقے مختلف عبادات کی صورت میں موجود ہیں، ان کا معمول بنایا جائے۔
7: اسراف کی عادت نوجوانوں کے مستقبل کے لیے زہر قاتل ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اس عادت سے جان چھڑائیں اور سادہ طرز زندگی کو اختیار کریں، برانڈڈ ملبوسات اور دیگر اشیا کا بائیکاٹ کیا جائے، تاکہ ملکی سرمایہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بجائے لوکل کمپنیوں کے پاس جائے، نیز سادہ طرز زندگی مالی بچت کا بھی بڑا ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے اہل و عیال، اور اردگرد موجود ضرورت مندوں کی کفالت کر سکتے ہیں۔
8: نوجوانوں کو چاہیے کہ منفی رویوں کے بجائے مثبت رویوں کو فروغ دیں۔ آپسی موازنے کے بجائے اقوام عالم سے موازنے کا ہدف متعین کریں، سوشل میڈیا پر مباحثے کے بجائے علمی حلقوں میں مکالمے کا رجحان اپنائیں۔
9: سیاست کے میدان سے حتی الامکان کنارہ کشی اختیار کی جائے، سیاست کے میدان سے وابستہ ہونا ناگزیر ہو تو باقاعدہ سیاست کی تعلیم حاصل کی جائے، تاکہ عہدے پر براجمان ہونے کے بعد اپنے فرائض منصبی اور حقوق الناس سے مکمل آگاہی ہو۔ جن کا تعلیمی موضوع سیاست نہ ہو وہ اپنے اور قوم کے مستقبل کو سیاسی وابستگی کے لیے خطرے میں نہ ڈالیں۔ ایسی بلاضرورت وابستگیاں ہی آپس میں رنجشیں، نفرتیں اور انتشار پھیلنے کا سبب بنتی ہے۔
10: اپنا مقام بنانے کے بعد مقتدر حلقوں تک رسائی حاصل کر کے انتشار کے تمام عناصر کا سدباب کیا جائے۔ قومیت کی بنیاد پر پروان چڑھتے کھیلوں کے خلاف بھی آواز بلند کی جائے، عصبیت کے پردوں کو چاک کیا جائے اور ملی اتحاد، اتفاق اور بھائی چارے کی فضا قائم کی جائے۔
ان سب کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر قوم میں رجوع الی اللہ کی فضاء قائم کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر طرح کے مشکل حالات میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہوتے۔ اسی سے اپنی بگڑی بنانے کی التجاء کرتے۔ جب تک دعا قبول نہ ہو جاتی،تب تک در نہ چھوڑتے۔ ہمیں بھی ایسے موقع پر اپنے گناہوں سے معافی مانگتے ہوئے، ائندہ ترک کرنے کا عزم کرنا چاہیے۔ تاکہ وہ ذات ہمارے حالات سدھارنے کو اپنا “کن” فرما دے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں