77

سیدنا ابن عباس؄  ! فصیح البیان ،صاحب عقل و دانش نوجوان /تحریر/اعجاز خاں میو

خوش قسمت شخصیت کی پیدائش ہجرت سے 3 برس قبل شعب ابی طالب میں محصوریت کے دوران ہوئی تھی۔پیدا ہوتے ہی ان کی والد گود میں لے کر رسول اقدسﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺنے اپنے لعاب دہن سے گھٹی دی ۔اس طرح ان کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز اتری وہ رسول خدا ﷺ کا لعاب مبارک تھا اور اس کے ساتھ ہی تقویٰ و طہارت، حکمت و دانش، فصاحت و بلاغت جیسے اوصاف حمیدہ ان کے رگ وریشہ میں رچ بس گئے۔اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان برحق ہے: وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ترجمہ: ’’جس کو حکمت ودانش عطا کی گئی ہوا سے خیر کثیر سے نوازا گیا۔‘‘ ابھی اس ہاشمی نوجوان نے ہوش سنبھالا ہی تھا کہ رسول اقدسﷺ کی خدمت کے لیے انہیں وقف کر دیا گیا۔ سفر و حضر میں آپﷺ کے ساتھ رہتے جب آپﷺ وضو کا ارادہ فرماتے تو فورا ًپانی لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوتے ۔جب آپﷺ نماز شروع کرتے یہ بھی آپﷺ کے پہلو میں ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے۔ دوران سفر کئی مرتبہ انہیں رسول اکرم ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا غرضیکہ ہر دم آپﷺ کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہتے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے حساس دل، پاکیزہ ذہن اور قوی حافظہ عطا کیا تھا کہ عصر حاضر کے جدید ترین ریکارڈنگ کے آلات بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ وصال رسول مقبول ﷺ کے وقت آپ کی عمرصرف تیرہ برس تھی اتنی چھوٹی سی عمر میں انہیں ایک ہزار چھ سو ساٹھ احادیث زبانی یاد تھیں جنہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلمرحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتابوں میںنقل کیا ہے۔ یہ جلیل القدر صحابی رسول خداﷺکے چازاد بھائی علم دین کے بحر بیکراں، تقویٰ وطہارت کے پیکر، دن کو روزہ دار اور رات کو عبادت گزار بوقت سحر مغفرت کے طلب گار ،مشیت الٰہی سے یوں زار و قطار رونے والے کہ آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔ کتاب الٰہی کے رموز و اسرار کا سب سے زیادہ ادراک رکھنے والے اور مفسر قرآ ن سیدنا عبداللہ بن عباس ؄ ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس؄ اپنے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول خدا ﷺنے وضو کا ارادہ کیا تو میں نے فوراً آپ ﷺ کی خدمت میں پانی پیش کر دیا آپ ﷺ میری خدمت گزاری پر بہت خوش ہوئے ۔جب آپﷺ نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو مجھے بھی اپنے ساتھ نماز پڑھنے کا اشارہ کیا میں آپﷺ کےپہلو کی بجائے پیچھے کھڑا ہو گیا اورجب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا: ’’ عبداللہ ؄ ! تم میرے ساتھ کیوں نہیں کھڑے ہوئے۔ ‘‘ میں نے عرض کیا:’’ حضور !آپﷺ کی عزت و احترام اور عظمت و جلال کی بنا پر آپ ﷺکے پہلو میں کھڑا ہونے کی تاب نہ لا سکا۔‘‘ آپﷺ نے میری یہ بات سن کر آسمان کی طرف اپنے ہاتھ بلند کیے اور دعا کی: ’’ الٰہی !عبداللہ ؄ کو حکمت ودانائی عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺکی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور اس ہاشمی جو ان کو ایسی حکمت و دانش عطا فرمائی جس کی بناپر آپ ؄بڑے بڑے حکما ء اور دانشوروں پر فوقیت حاصل کر گئے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس؄کو اپنی عالمانہ حیثیت اور بے شمار خوبیوں کی بنا پر باوجود اپنی چھوٹی عمر کے خلفائے راشدین کا مشیر خاص ہونے کا شرف حاصل تھا۔ سیدنا عمر فاروق؄ کو اگر کوئی مشکل مسئلہ پیش آتا تو آپ ؄ اسے حل کرنے کے لیے جہاں کبار صحابہ کرام ؇ کو مدعو کرتے وہاں ان کے ساتھ سیدنا عبداللہ بن عباس؄ کو بھی دعوت دیتے۔ جب آپ تشریف لاتے تو انہیں اپنے قریب بٹھاتے اور پیار بھرے الفاظ میں اظہار خیال کرتے کہ آج ہمیں ایک مشکل مسئلہ درپیش ہے میرے خیال میں آپ ہی اس مشکل مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ایک مجلس میں تو سیدنا عمر بن خطاب ؄ کے اس رویے پر اعتراض بھی کیا گیا کہ کبار صحابہ ؇ کی موجودگی میں ایک کم عمر صحابی کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔آپ نے اعتراض کے جواب میں صراحتاً ارشاد فرمایا: ’’ یہ ایک منجھا ہوا فصیح البیان اور صاحب عقل و دانش نوجوان ہے۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن عباس؄جب کبھی خاص لوگوں کی تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ ہوتے تو عوام کو نظر انداز نہ کرتے بلکہ ان کی تربیت کے لیے بھی وعظ و ارشاد کی محفل منعقد کرتے۔آپ ؄کسی گناہ کرنے والے کو مخاطب کر کے یوں ارشاد فرماتے: *۔ اے گناہ کا ارتکاب کرنے والے گناہ کا انجام ہمیشہ ہولناک ہوتا ہے۔ *۔اےگناہ کے مرتکب گناہ کرتے وقت تیرا خوش ہونا اس گناہ سے کہیں بڑا جرم ہے۔ *۔ گناہ کا ارتکاب کرتے وقت تو لوگوں سے تو خوفزدہ ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے خوف سے تیرا دل خالی ہوتا ہے گناہ کرنے میں کامیاب ہو جائے تو خوش ہوتا ہے اگر نا کام رہے تو کف افسوس ملتا ہے یا درکھ یہ ایک خطر ناک اخلاقی بیماری ہے۔ *۔ اے گناہ کا ارتکاب کرنے والے تو جانتا ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو جسمانی و مالی اذیت میں کیوں مبتلا کیا گیا وہ اس لیے کہ ایک غریب و مسکین شخص نے اپیل کی تھی کہ مجھے ظالموں کے چنگل سے آزاد کرایا جائے اور آپ نے اس کی مدد نہیں کی تھی۔ حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیںکہ ایک دفعہ مجھے سیدنا عبداللہ بن عباس؄کے ہمراہ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک سفر کرنے کا اتفاق ہوا جب ہم کسی جگہ پڑاؤ کرتے تو آپ آدھی رات تک عبادت میں مشغول رہتے جبکہ دوسرے ہم سفر تھکاوٹ سے چور ہو کر نیند کی آغوش میں مجو استراحت ہوتے۔ میں نے ایک رات دیکھا کہ آپ ؄ بار بار یہ آیت پڑھ رہے ہیں اور زار و قطار رو رہے ہیں۔ وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمُوتِ بِالْحَقِّ ذَالِكَ مَا كُنتَ مِنْهُ تَعِيْدُه (ق – ۱۹) ترجمہ : ’’ اور موت کی جان کنی حق لیکر آ پہنچی یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔‘‘ آپ ؄ اس رات مسلسل یہی آیت طلوع فجر تک پڑھتے رہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس؄علم و تقویٰ کے معیار پر پورے اترنے کے ساتھ ساتھ حسن و جمال کے پیکر تھے،خشیت الٰہی سے رات بھر روتے رہتے ۔آپ ؄ کے صاف شفاف رخساروں پر لگا تار آنسو اس طرح بہتے جیسے موتیوں کی لڑی ہو ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس؄نے حصول علم کے لیے بہت محنت کی رسالت مآبﷺ کے چشمہ علم سے جی بھر کر سیراب ہوئے آپﷺ کے وصال کے بعد حصول علم کے لیے علماء صحابہ کرام ؇کی طرف رجوع کیا۔ سیدنا عبداللہ بن عباس؄ فرماتے ہیں : ’’ جب مجھے یہ اطلاع ملتی کہ فلاں صحابی کے پاس حضور ﷺ کی کوئی حدیث ہے تو میں بلا تاخیر اس کے گھر پہنچتا دہلیز پر چادر بچھا کر بیٹھ جاتا ۔ہوا سے مٹی اڑ اڑ کر مجھ پر پڑتی رہتی لیکن میں صاحب علم کے احترام کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کے آرام میں مخل ہونا مناسب نہ سمجھتا۔ جب وہ از خود اپنے گھر سے باہر آتے اور مجھے اپنی دہلیز پر بیٹھا ہوا د یکھتے تو بے ساختہ پکار اٹھتے عبداللہ؄ ! آج آپ یہاں کیسے؟ آپ؄ نے مجھے پیغام بھیج دیا ہوتا میں خود آپ کے پاس آ جاتا۔میں جواب میں کہتاکہ میں آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ پیاسا چشمے کے پاس آتا ہے نہ کہ چشمہ پیاسے کے پاس۔ ‘‘ سیدنا عبداللہ بن عباس؄ اپنے اساتذہ کی بہت عزت کیا کرتے تھے کبار علماء صحابہ ؇ بھی آپ کے ساتھ بہت شفقت و محبت سے پیش آتے جیسا کہ کاتب وحی حضرت زید بن ثابت ؄ قضاء فقیہ قرآۃ اور علم وراثت میں عبور حاصل تھا۔ جب کہیں جانے کے لیے اپنی سواری پر بیٹھنے کا ارادہ کرتے تو سیدنا عبداللہ بن عباس؄ان کے سامنے ادب واحترام کی تصویر بن کر یوں کھڑا ہو جاتے جیسے کوئی غلام اپنے آقا کے سامنے با ادب کھڑا ہوتا ہے۔ نہایت ادب کے ساتھ آپ ؄ کے گھوڑے کی لگام پکڑتے ۔ یہ انداز دیکھ کر حضرت زید بن ثابت ؄ فرماتے : ’’عبداللہ ؄ ! ایسے نہ کیا کرو۔‘‘ آپ فرماتے :’’ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے اساتذہ کی عزت کریں۔ ‘‘ یہ سن کر حضرت زید بن ثابت ؄ نے فرمایا: ’’ذرا اپنے ہاتھ تو مجھے دکھا ئیں آپ نے ہاتھ ان کی طرف بڑھایا تو حضرت زید ؄ نے اسے چوم لیا اور ارشاد فرمایا کہ ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے کہ اہل بیت کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں اور محبت کریں۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن عباس؄ میدان علم کے ایسے بلند مقام پر فائز ہوئے جسے دیکھ کر کبار علما صحابہ؇ ششدر رہ گئے۔ حضرت مسروق بن اجدع رحمۃ اللہ علیہ جنہیں تابعین میں بہت بلند مقام حاصل ہے ان کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جب میںسیدنا عبداللہ بن عباس؄ کو دیکھتا تو بے ساختہ پکار اٹھتا کہ آپ ؄ سب لوگوں سے زیادہ حسین ہیں۔ جب آپ ؄ کی گفتگو سنتا تو یہ کہنے پر مجبور ہوتا کہ آپ ؄ سب سے بڑھ کر فصیح و بلیغ میں اور جب آپ ؄ کوئی حدیث بیان کرتے تو آپ کی عالمانہ گفتگو سن کر یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہو جاتا کہ آپ ؄ اس دور کے سب سے بڑے عالم ہیں۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن عباس؄ نے جب یہ دیکھا کہ لوگوں میں علم حاصل کرنے کی بہت تڑپ ہے تو ان کے لیے باقاعدہ ایسا پروگرام ترتیب دیا جس سے آپ؄ کے دروازے پر لوگوں کا زیادہ ہجوم بھی نہ ہو اور انہیں دینی علوم سے فیضیاب بھی کیا جائے ۔لہٰذا آپ ؄ نے ہفتےمیں ایک دن صرف تفسیر قرآن کے لئے، ایک دن صرف فقہ کے لیے، ایک دن مغازی کے لیے، ایک ان شعر و شاعری کے لیے اور ایک دان تاریج عرب کی تدریس کے لیے مخصوص کردیا۔ آپ ؄ کی مجلس میں اگر کوئی عالم آ کر بیٹھتا تو آپ؄ اس کے ساتھ انتہائی انکسار و تواضع سے پیش آتے اگر کوئی سائل سوال کرتا تو اسے تسلی بخش جواب دیتے ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس؄حصول علم کی منزلیں طے کر لینے کے بعد لوگوں کو تعلیم دینے میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔ آپ ؄ کا گھر عوام کے لیے بہت بڑی جامعہ کا درجہ اختیار کر گیا تھا البتہ جامعہ ابن عباس اور موجود و دور کی جامعات میں یہ فرق ہے کہ آج کے دور کی جامعات میں سینکڑوں اساتذہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جبکہ جامعہ ابن عباس کا دارو مدار صرف ایک استاد پر تھا اور وہ تھے مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس؄۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک روز دیکھا کہ بہت سے لوگسیدنا عبداللہ بن عباس؄ کے گھر کی طرف جارہے ہیں، لوگ اتنے زیادہ تھے کہ راستے مسدود ہو گئے۔ میں نے آپ ؄ کو اس صورتِ حال سے آگاہ کیا تو میری بات سن کر ارشاد فرمایا کہ پانی لاؤ ۔میںنے پانی آپ کی خدمت میں پیش کیا ۔آپ نے وضو کیا اور مجھ سے کہا کہ مجمع میں اعلان کردو کہ جو لوگ قرآن مجید کے الفاظ و حروف کے متعلق کو ئی سوال کرنا چاہتے ہیں سب سے پہلے وہ اندر تشریف لائیں۔ میں نے باہرجا کر یہ اعلان کیا تو مجمع میں سے کچھ لوگ اندر داخل ہوئے جس سے گھر کاصحن بھر گیا۔ آپ نے ہر ایک کے سوال کا تسلی بخش جواب دیا۔ جب و ہ مطمئن ہو گئے تو آپ نے فرمایا کہ اب اپنے دوسرے بھائیوں کے لیے جگہ بنا دو وہ باہر آگئے پھر آپ نے مجھے حکم دیا کہ اب یہ اعلان کرو کہ جو حضرات قرآن مجید کی تفسیر کے متعلق سوال کرنا چاہتے ہیں اندر تشریف لے آئیں۔میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے باہر آ کر یہ اعلان کر دیا ۔کچھ اورلوگ اندر آئے جس سے گھر کاصحن بھر گیا ۔آپ نے ان کے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا۔ جب وہ مطمئن ہو گئے تو آپ نے فرمایاکہ اپنے دوسرے بھائیوں کے لیے راستہ بنا دو وہ اٹھ کر باہر چلے گئے اور مجھے حکم دیا کہ اب یہ اعلان کہ جو لوگ حلال و حرام کے متعلق کچھ پوچھنا چاہتے ہیں وہ اندر تشریف لے آئیں۔ یہ اعلان سن کر کچھ لوگ اندر آئے جس سے کمرہ اور صحن بھر گیا اور آپ نے ہر ایک کے سوال کا تسلی بخش جواب دیا۔ جب وہ مطمئن ہو گئے تو آپ نے فرمایا کہ اب اپنے بھائیوں کے لیے جگہ خالی کر دو وہ اٹھ کر باہر چلے گئے ۔پھر مجھے حکم دیا کہ اب یہ اعلان کرو کہ جولوگ وراثت کے متعلق کچھ پوچھنا چاہتے ہیںو ہ اندر آجائیں۔میرا یہ سن کر اتنے لوگ اندر آئے کہ گھر کا صحن کھچا کھچ بھر گیا۔ آپ نے ہر ایک کے سوال کا تسلی بخش جواب دیا جب وہ مطمئن ہو گئے تو آپ نے فرمایا کہ اب اپنے دوسرے بھائیوں کے لیے موقعہ دو وہ باہر آ گئے اور مجھے یہ حکم دیا کہ اب یہ اعلان کروکہ جو لوگ عربی زبان اشعار اور کلام عرب کے غریب الفاظ کے متعلق دریافت کرنا چاہتے ہیں وہ اندر آئیں ۔ میں نے تعمیل ارشاد کی۔ اعلان سن کر اتنے لوگ اندر آئے کہ صحن بھر گیا ۔ آپ نے ہر ایک کے سوال کا تسلی بخش جواب دیا ۔ 35ھ جب سیدنا عثمان بن عفان؄ اپنے گھر میں محصور تھےتو سیدنا عبداللہ بن عباس؄ کوامیر حج بنا کر بھیجا لیکن جب آپ ؄ اس خدمت کو سر انجام دے کر واپس آئے تو مدینہ نہایت پر آشوب تھا،اورخلیفہ ثالث شہید ہوچکے تھے۔ جنگ جمل اور معرکۂ صفین میں آپ ؄ نے سیدنا علی المرتضیٰ ؄کا ساتھ دیا ۔ بصرہ پر دوبارہ قبضہ کے بعدسیدنا عبد اللہ بن عباس ؄ یہاں کے گورنر بنائے گئے۔ سیدنا ابن عباس؄ آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے اور مکہ میں زندگی بسر کرتے تھے۔انہیںحضرت عبد اللہ بن زبیر ؄ اور عبد الملک بن مروان کی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔حضرت عبد اللہ بن زبیر؄ نے آپ ؄سے بیعت طلب کی لیکن سیدنا ابن عباس ؄نے انکار کر دیا۔ حضرت ابن زبیر ؄نے انہیں طائف جلا وطن کر دیا۔ مشہور یہ ہے کہ سیدنا ابن عباس؄ کا انتقال سن 68 ہجری یاسن 69 ہجری میں ستر سال کی عمر میں طائف میں ہوا اور حضرت محمد بن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے آپ؄ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو وہیں دفن کیا گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں