106

شاہ فرغانہ مخدوم العالم کے دربار میں/تحریر/علامہ ڈاکٹر مولانامحمد جہان یعقوب

آج ہم آپ کو معمول سے ہٹ کر ایک سچا واقعہ سناتے ہیں۔یہ واقعہ ہے مخدوم بہاءالدین زکریا ملتانی سہروردیؒ کے صاحبزادے مخدوم صدرالدین عارف ملتانی کے عقدِمسنون کا۔
صاحب زادہ صدرالدین عارف کو طواف بیت اللہ شریف کا از حد شوق تھا۔ خانہ کعبہ کا طواف اس وقت کرتے، جب اور کوئی طواف کرنے والا نہیں ہوتاتھا۔ ایک رات جب آپ طواف میں مصروف تھے تو فرغانہ کی شہزادی جو اپنے وقت کی سلطان المشائخ تھیں، آپ سے چند قدم پیچھے طواف کر رہی تھیں۔ شہزادی کی نظر آپ کی پشت مبارک پر پڑی جہاں سے رہ رہ کر نور کی کرنیں منعکس ہو رہی تھی۔ شہزادی نے خداوندانہ فراست سے معلوم کر لیا کہ “شعاع نور” کسی قطبِ وقت کی ہیں جو آپ کی صلب میں جلوہ افروز ہیں۔ چنانچہ جب آپ طواف سے فارغ ہوئے تو شہزادی نے آپ کو مخاطب کیا اور پوچھا: آپ کون ہیں، آپ کا وطن شریف کہاں ہے؟
آپ نے فرمایا: نام صدر الدین اور وطن ملتان۔
پھر شہزادی نے پوچھا: بہاء الدین زکریا کا ملتان۔
آپ نے فرمایا: جی ہاں! بندے کو بہاء الدین زکریا کی فرزندی کا شرف بھی حاصل ہے۔ شہزادی کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوئی: کیا آپ کی شادی ہو چکی ہے؟
آپ نے فرمایا: نہیں۔
شہزادی نے عرض کی: اگر آپ شادی کرنا چاہیں تو ایک موزوں رشتہ آپ کو مل سکتا ہے۔
آپ نے مسکرا کر کہا :یہ معاملہ میرے والد ماجد کے متعلق ہے، جب اور جس کے لیے چاہیں گے ،میں بے حیل و حجت قبول کر لوں گا۔
شہزادی وطن واپس ہوئی اور جا کر تمام معاملہ اپنے والد کے سامنے بیان کر دیا۔ وہ اس خبر سے بہت خوش ہوئے، انھوں نے تمام امور ِریاست وزیروں کے سپرد کیے اور ملتان شریف کے سفر کے لیے روانہ ہو گئے۔ شاہی قافلہ جہاں رُکتا، وہاں ایک کنواں رفاہِ عامہ کے لیے بنوالیا جاتا۔ جب یہ قافلہ ملتان کی حدود میں داخل ہوا تو بہاء الدین زکریا ملتانی مع صاحبزادگان و خلفااستقبال کے لیے شہر سے باہر آئے۔ جس جگہ قافلے کا استقبال کیا گیا، یہ وہی جگہ ہے، جہاں اب اِن نیک بخت خاتون بی بی راستی کا مزار ہے۔
بہاء الدین زکریا ملتانی کی امیری نما فقیری کی شہرت شہنشاہِ فرغانہ جمال الدین، فرغانہ سے ہی سن کر آئے تھے ،پھر بھی کسی خیال کے تحت ایک تھال زرو جواہر کا اپنے ساتھ لائے۔ ایک دن جب بہاء الدین زکریا ملتانی اپنے حجرہ میں مصروف عبادت تھے،تو جمال الدین نے یہ نظرانہ خدام کے ذریعے پیش کیا۔ حضور نے توجہ نہ فرمائی اور مصلے کا ایک کنارہ اٹھا کر کہا: ذرا ادھر توجہ فرمائیں۔
فرغانہ کا بادشاہ یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ نیچے جواہرات کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
دوسرے دن عشا کی نماز سے فراغت کے بعد حسبِ معمول حضرت کے تمام فرزند اور اکابر خلفا دوزانو بیٹھے ہوئے تھے، سلطان نے عرض کی :حضور !اس خادم کی ایک عاجزہ ہے، اپنی اولاد میں سے کوئی مخدوم زادہ مرمت فرمائیں تاکہ اسے ان کی غلامی میں دے سکوں۔
بہاء الدین زکریا ملتانی نے فرمایا :میرے تمام لڑکے حاضر ہیں، جس کو اپنا فرزند بنانا چاہیں ،آپ مختار ہیں۔ سلطان نے اشارہ صدر الدین عارف کی طرف کیا۔ بہاء الدین زکریا ملتانی تو پہلے ہی نور ِباطن سے سب کچھ معلوم کر چکے تھے پھر بھی صدرالدین عارف سے پوچھا :رشتہ منظور ہے۔
صدرالدین عارف اپنی جگہ سے اٹھے اور والد ماجد کے قدم شریف کو بوسہ دیا۔ دونوں طرف مسرت کی لہر ڈوڑ گئی۔ بہاء الدین زکریا ملتانی نے سلطان کی طر ف مسکراتے ہوئے دیکھا اور فرمایا :مبارک ہو۔
ساتھ ہی خدام کو اشارہ کیا کہ مٹھائی لے آؤ۔ اسی محفل میں بہاء الدین زکریا نے صدر الدین اور بی بی راستی کا نکاح پڑھا اور خطبہ تلاوت فرمایا۔ اس کے بعد سلطان جمال الدین نے شہزادی کا ہاتھ شیخ الاسلام کے دست ِمبارک میں دے کر فرمایا
من این عاجزہ را مسلمان روز قیامت مسلمان میخواہم
غوث العالمین نے شہزادی کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا
این فرزند من است، انشاءاللہ مسلمان خواہد بود
اس کے بعد سلطان نے اجازت چاہی اور اپنے وطن واپس لوٹ گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں