97

لاہور میں ناشتہ کرنے کا خواب/تحریر/کیپٹن ریٹائرڈ غلام شبیر منہاس

میرے بچو! آج ایک بار پھر ہمیں وہی اتحاد وہی اتفاق وہی یگانگت اور وہی جذبہ لانا ہو گا۔ دشمن نے جان لیا ہے کہ وہ جنگ میں ہم سے کبھی نہیں جیت سکتا۔ اس لیئے اب وہ مختلف سازشوں میں مصروف ہے۔ ایسے میں آپ نوجوانوں پہ فرض یے کہ خود بھی ایسی کسی سازش کا حصہ نہ بنیں اور باقی نوجوانوں کو بھی بتلائیں کہ جن ملکوں میں افواج نہیں ہوا کرتیں وہ ملک آدھے گھنٹے میں کویت سے عراق بن جایا کرتے ہیں۔ یہ ہمارا گھر ہے یہ دھرتی ماں ہے ہماری۔ اور ہم کسی بدبخت کو اسکی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ آیئندہ بھی قیامت تک یہاں ناشتے کا ناپاک خواب زہن میں لے کر اترے۔۔

بابا فضل دین گاوں کے قدیمی برگد کے نیچے بنے چوپال میں بیٹھا ماضی کے اوراق کو ایک ایک کر کے پلٹ رہا تھا۔ اور اس کے اردگرد بیٹھے نوجوان بڑے ہی انہماک سے بابا جی کو سن رہے تھے۔
یہ ستمبر اوائل کا ایک گرم دن تھا اور نماز عصر کے بعد حسب معمول بابا فضل دین وہاں بیٹھا تھا جب نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد میں یہ بحث چل نکلی کہ ستمبر 1965ء میں اس دشمن پہ کیا بیتی جو رات کے آندھیرے میں لاہور جم خانہ کے لان میں ناشتہ کرنے کا پلان لے کر نکلا تھا۔ یہ سب لوگ بابا جی سے اس کہانی کو حقیقی پیرواؤں میں سننے کے متمنی تھے۔
بابا جی ان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ دیکھو بچو، ایک بات سنو، کامیاب قومیں ہمیشہ ماضی سے سیکھتے ہوئے حال کو سنوارتی ہیں اور ان تجربات کی روشنی میں اپنے مستقبل کو روشن تر کرنے کیلئے کوشاں رہتی ہیں۔ ایسے حالات میں جب نوجوان نسل کے زہنوں میں اپنے ہیروز اور ماضی کے حوالہ سے زہر بھرا جا رہا ہو۔ ان کو بتایا جا رہا ہو کہ جو کچھ آپکو پڑھایا جا رہا ہے یہ درست نہیں اور انکو ملکی اداروں کے خلاف صف آراء کیا جا رہا ہو تو اس وقت ہم سب پہ یہ فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو وہ تمام واقعات سنایئں جن کے ہم عینی شاہد بھی ہیں اور ان روایات کے امین بھی۔
سب بچے ہمہ تن گوش تھے۔ بابا جی گویا ہوئے کہ آج ستمبر 1965ء کی جنگ کو ہوئے پورے اٹھاون برس بیت چکے ہیں مگر اب بھی یہ بحث و تمحیص اکثر جاری رہتی ہے کہ اس جنگ کا سبب کیا بنا تھا۔ کیونکہ جنگیں راتوں رات شروع نہیں ہو جایا کرتیں بلکہ ان کے طویل پس منظر ہوا کرتے ہیں۔تاہم جنگوں کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں جنکو ہمارے بزدل دشمن نے ہمیشہ پامال کیا۔ اس جنگ میں بھی بنا کسی پیشگی اطلاع کے رات کے پچھلے پہر یہ لاہور کو فتح کرنے اور 6 ستمبر کا ناشتہ یہاں کرنے کا ناپاک خواب آنکھوں میں سجائے ہم پہ چڑھ دوڑا تھا۔انکا پلان تھا کہ 6 ستمبر کی صبح تک بھارتی افواج لاہور میں پوری طرح داخل ہو چکی ہوں گی اور لاہور کے مال روڈ پہ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری اپنے اہم وزراء کے ہمراہ سلامی لیں گے۔ جب کہ اسی شام جم خانہ لاہور میں کاک ٹیل پارٹی کے دوران بیرونی دنیا کو یہ بریکینگ دی جائے گی کہ بھارت پاکستان کے دل پہ مکمل طور قابض ہو چکا ہے۔ مگر مسلح افواج اور قوم نے مل کر اس کو وہ ناشتہ کرایا جو اسکو قیامت تک یاد رہے گا۔
میرے بچو، 1963ء سے ریاست جموں کشمیر میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی چل رہی تھی۔ بھارت نے اس کشیدگی سے توجہ ہٹانے کیلئے اپریل 1965ء میں رن آف کچھ کے پاکستانی علاقوں کو ہتھیانے کا پلان بنایا اور اسی منصوبے کے تحت 5 اپریل 1965ء کی رات پاک رینجرز کی چوکیوں پہ حملہ کر دیا اور بظاہر اسکو روٹین کی سرحدی جھڑپ کہہ کر بھارت نے نظرانداز کرنے کی کوشش کی مگر انٹیلیجنس اداروں کی رپورٹس نے حکومت اور مسلح افواج کو چونکا دیا۔ ان رپورٹس کے مطابق نہ صرف بھارتی فوج کے ڈپٹی انچیف میجر جنرل کمارا منگلم خود وہاں موجود تھے بلکہ بھارتی وزیرداخلہ بھی اسی علاقہ میں اپنی اگلی سرحدی چوکیوں کا دورہ کر رہے تھے۔ ان خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت کے صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے کمانڈر انچیف جنرل موسی خان کو ضروری فوجی اقدامات کرنے کا حکم دیا۔ جس پر پاک آرمی کے آٹھویں ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل ٹکا خان کو رن آف کچھ کے مقبوضہ علاقوں سے بھارتی فوج کو واپس دھکیلنے کا ٹاسک دیا گیا۔ انہوں نے برگیڈیر افتخار خان جنجوعہ کو یہ مشن سونپا جنہوں نے 27 اپریل 1965ء کے دن بھارتی فوج سے تمام علاقے واپس لیتے ہوئے انہیں واپس دھکیل دیا۔ اس پہ بھارت کے اندر سے بھی بہت آوازیں اٹھیں اور اپنی حکومت و فوج کو برا بھلا کہا گیا۔ لہذا اس موقعہ پہ لال بہادر شاستری نے پاکستان کو دھمکی دی کہ
” بھارت اب اپنی مرضی کا محاذ کھولے گا”۔
یہ وہ پس منظر تھا جسکی وجہ سے بھارت نے کشمیر اور رن کچھ میں اپنی خفت مٹانے کیلئے 5 اور 6 ستمبر کی رات پچھلے پہر پیشگی جنگ کا اعلان کیئے بغیر پاکستان پر حملہ کر دیا۔ یہ اتنا منظم اور بھرپور حملہ تھا کہ بھارت کو یقین تھا کہ ہم راہ میں حائل ہر چیز کو روندتے ہوئے صبح تک لاہور میں داخل ہو جایئں گے۔ اور ناشتہ لاہور میں جا کر کریں گے۔
بابا فضل دین لمحہ بھر کیلئے رکے، سانس بحال کی اور دوبارہ گویا ہوئے۔ بچو سچ یہ ہے کہ بھارت اس خوش فہمی میں کچھ زیادہ غلطی پہ بھی نہیں تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ یوں اچانک اتنے بھرپور حملے کو پاکستان کبھی بھی نہیں روک پائے گا۔ مگر یہ انکی خام خیالی تھی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے ریڈیو پاکستان پہ قوم کے نام مختصر خطاب کیا جس کے بعد پوری قوم اپنی مسلح افواج کے ساتھ مکار دشمن کا مقابلہ کرنے نکل کھڑی ہو گئی۔ دشمن کو بجائے لاہور میں ناشتہ کرنے کی خواہش کو پورا کرنے کے انہیں بیدیاں اور واہگہ پر ہی روک لیا گیا۔ برکی سیکٹر پہ بی آر بی نہر کے کنارے میجر عزیز بھٹی نے پانچ دن تک مسلسل دشمن کو روکے رکھا۔ کئی حملے ناکام بنائے اور ایک انچ آگے نہ بڑھنے دیا۔ 12 ستمبر 1965ء کے دن بھارتی ٹینک کا گولہ عزیز بھٹی کے سینے میں آ لگا جس سے انکی شہادت واقع ہو گئی۔ دشمن نے کھیم کرن کے مقام سے قصور میں بھی داخل ہونے کی کوشش کی اور نارووال کے چونڈہ سیکٹر سے سیالکوٹ میں بھی مگر ہر طرف سے وطن کے عظیم بیٹوں نے دشمن کو روکے رکھا۔یہی وہ عظیم معرکہ تھا جس میں ہمارے شیردل سپاہی جسم کیساتھ بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے تھے۔ پاک فضائیہ نے بھارتی علاقے پٹھان کوٹ، آدم پور اور بلواڑہ ایئر بیسز پر یوں کامیاب فضائی حملے کیئے کہ بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اسی طرح پاک بحریہ نے بھی اپنی شاندار روایات کے عین مطابق نہ صرف کراچی بندرگاہ کی جانب بھارتی پیش قدمی روکی بلکہ بھارت کے اندر جا کر دوارکا کے مقام پر بھارتی طیاروں اور ریڈار سسٹم کو تباہ کر دیا۔
یوں ستمبر 1965ء کو بھارتی ناشتے کا خواب تو پورا نہ ہوا مگر بھارت اپنی عبرتناک شکست کیوجہ سے دنیا بھر میں بدنام ہوا۔ اور یوں اپنی مرضی کے محاذ کا انتخاب کرنے سے اپنی مرضی کی جنگ شروع کرنے تک، لاہور میں ناشتہ کرنے کے خواب سے جم خانہ میں فتح کے اعلان تک کے عزائم کو خاک میں ملانے والے ہمارے اصل ہیروز ہیں اور ہم ہر سال ستمبر میں اپنے انہی ہیروز کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں جو ناشتہ اٹھا کر 23 دن مسسلسل دشمن کے تعاقب میں رہے مگر دشمن ناشتہ تو درکنار چائے کے ایک گھونٹ کیلئے بھی کہیں لمحہ بھر کے لیے قدم نہ جما پایا۔
میرے بچو! آج ایک بار پھر ہمیں وہی اتحاد وہی اتفاق وہی یگانگت اور وہی جذبہ لانا ہو گا۔ دشمن نے جان لیا ہے کہ وہ جنگ میں ہم سے کبھی نہیں جیت سکتا۔ اس لیئے اب وہ مختلف سازشوں میں مصروف ہے۔ ایسے میں آپ نوجوانوں پہ فرض یے کہ خود بھی ایسی کسی سازش کا حصہ نہ بنیں اور باقی نوجوانوں کو بھی بتلائیں کہ جن ملکوں میں افواج نہیں ہوا کرتیں وہ ملک آدھے گھنٹے میں کویت سے عراق بن جایا کرتے ہیں۔ یہ ہمارا گھر ہے یہ دھرتی ماں ہے ہماری۔ اور ہم کسی بدبخت کو اسکی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ آیئندہ بھی قیامت تک یہاں ناشتے کا ناپاک خواب زہن میں لے کر اترے۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں