114

قیام پاکستان کی جدوجہد میں علمائے کرام کا کردار/از قلم/عصمت اسامہ

1857ء کی جنگ_آزادی میں ناکامی کے بعد دہلی شہر میں چار ہزار دینی علوم کے مدرسے موجود تھے ،جن کو انگریز سرکار نے گرانے کا حکم صادر فرمایا ۔

*آزادی کی تعریف:
دین اسلام کا عالم انسانیت کے لئے سب سے بڑا تحفہ “آزادی” ہے۔ایک بندہء مومن صرف اپنے رب کا غلام ہوتا ہے اسلام نے انسان کو انسان کی غلامی سے آزاد کیا ہے۔آزادی شرف_انسانیت ہے.
*عالم کی تعریف:
تفسیر ابنِ کثیر میں حضرت حسن بصری کا قول ہے :
” عالم اسے کہتے ہیں جو(قرآن وسنت کے علم کے ساتھ) درپردہ بھی اللہ سے ڈرتا رہے اور اللہ کی رضا اور پسند کو چاہے اور اس کی ناراضگی کے کاموں سے نفرت رکھے۔
*علماء کا مقام :
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بے شک علماء ،انبیاء کے وارث ہیں “( ترمذی )
بقول اقبال:
~ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی !

قیام_ پاکستان کی جدوجہد میں علماء کا کردار
برصغیر میں برطانوی سامراج کا تسلط کم و بیش ایک صدی تک رہا ، برصغیر کے نامور علمائے کرام نے سیاسی میدان میں قوم کی رہنمائی کی ان میں حضرت مجدد الف ثانی ، امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، مولانا محمودالحسن ، سید عطاء اللہ شاہ بخاری و دیگر نے کفر والحاد کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی پوری کوشش کی۔فرنگی سامراج کے خلاف شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی قابلذکر کاوش “ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ” دینا ہے۔ “پاکستان کا مطلب کیا ،لا الہ الااللہ ” صرف ایک نعرہ نہیں تھا ،نصب العین تھا۔ بالا کوٹ میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل کی شہادت کا معرکہ ہو ،شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی تحریک ریشمی رومال ،مسلمانان برصغیر کی تحریک_ خلافت ہو،تحریک ترک موالات ،تحریک_ ہجرت، انگریز فوج بھرتی کی حرمت کا فتویٰ یا تحریک استخلاصوطن،جدوجہد آزادی کی پاداش میں ہزاروں علماء کو سولی پر لٹکا دیا گیا۔ قرآن و سنت سے مزین سینے رکھنے والوں کو انگریز سرکار کے حکم پر توپوں کے دھانوں پر باندھ کر اڑادیا گیا۔ 1857ء کی جنگآزادی میں ناکامی کے بعد دہلی شہر میں چار ہزار دینی علوم کے مدرسے موجود تھے ،جن کو انگریز سرکار نے گرانے کا حکم صادر فرمایا ۔
جدوجہدآزادی کی پاداش میں مالٹا سے لے کر مالدیپ تک ،قید خانوں کو علماۓ کرام سے بھر دیا گیا ۔ علمائے کرام نے اپنے قلم کی روشنائی سے اذہان کو منور کیا۔ مولانا محمد علی جوہر ،مولانا شوکت علی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنے علم و قلم سے نظریات کی جنگ میں اہم کردار ادا کیا ۔ آپ کی تصانیف و کتب میں مسلمانوں کے لئے ” نسلی اور وطنی قومیت” کی تردید کی گئ ہے ۔ آپ کے نزدیک سب انبیاۓ کرام علیہم السلام کا مقصد “حکومتالہیہ کا قیام ” تھا ۔مذید برآں، ” قرارداد_ مقاصد” کی تیاری میں علامہ شبیر احمد عثمانی اور علامہ ظفر احمد عثمانی کا کردار بہت اہم رہا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عصر_ حاضر میں وطن_ عزیز کا نظام ،قران وسنت کے مطابق چلایا جاۓ۔معاملہ ملکی معیشت کو سنبھالنے کا ہو تو اسلام کے احکامات کے مطابق کرپشن اور سودی نظام کا خاتمہ مطلوب ہے ،معاملہ عدلیہ پر بھروسے کا ہو تو دیانت داری سے سب کے ساتھ ایک جیسا انصاف مطلوب ہے، معاملہ سیاست کا ہو تو آئین اور اصولوں کی بالادستی مطلوب ہے۔معاملہ معاشرے میں امن وسکون کا ہوتو انفرادی تزکیہء نفس ،امر ںالمعروف اور نہی عن المنکر مطلوب ہے۔اپنے نفس کی بڑائی چھوڑ کر کل کائنات کے مالک کے احکام کی بالادستی مطلوب ہے ۔
بقول اصغر سودائی:

~ جرات کی تصویر ہے تو
ہمت_عالمگیر ہے تو
دنیا کی تقدیر ہے تو
آپ اپنی تقدیر بنا
پاکستان کا مطلب کیا
لا الہ الااللہ !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں