97

محلات میں بیٹھے حکمران اور غریب عوام کی پکار/تحریر/اختر عباس اخترسدھار (فیصل آباد)

الیکشن کی آمد آمد ہے نگران سیٹ اپ بنتے ہی الیکشن کی باتیں ہونے لگتی ہے نوے روز میں الیکشن ہوں یا ایک سو بیس روز میں الیکشن تو ہونے ہی ہیں الیکشن قریب آتے ہی حکمرانی کا خواب دیکھنے والوں کے دل میں غریبوں کی ہمدردیاں جاگ اٹھی ہیں انہیں غربت مہنگائی،بجلی کے بلوں میں آضافہ اور ملک میں بے روز گاری بھی نظر آنی شروع ہو گئی ہے اور یہ سب حسب معمول اور حسب دستور ہو رہا ہے گذشتہ ہفتے پاکستان مسلم لیگ ن کے ذمہ دارن کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ میاں نواز شریف 15اکتوبر کو پاکستان تشریف لارہے ہیں جو بعد ازاں شاید اکیس اکتوبر کی تاریخ فائنل کر لی گئی ہے جبکہ محترم قائد حکومت کرنے کا خواب آنکھوں میں سجائے آبائی وطن سے پاکستان پہنچیں گے اور حکومت ملنے پر اقتدار کے فوری بعد اگر نہ ملا تو شاید جلد واپس روانہ ہو جائیں گے ہاں البتہ اگر اقتدار میل گیا تو وہ ضروری میٹنگز اور علاج اپنے اصلی دولت خانہ بیٹھ پر ہی کروائیں گے پچھلے کئی سالوں سے میاں صاحب لندن رہائش پذیر ہیں وہ جس جگہ رہائش پذیر ہیں 90فیصد پاکستانیوں نے ایسی جگہ خواب میں بھی نہیں دیکھی ہو گی وہاں کے میٹنگ حال،اس میں لگے فانوس،فرنیچر، غریب انسان نے خواب میں یا پھر ٹی وی سکرین پر ہی دیکھے ہونگے یہ چیزیں بجا وہاں اس گھر کے واش روم میں لگی ٹائلیں پاکستان کے محلات پر لگی ٹائلوں سے منفرد اور شائد قیمتی ہونگی لندن کے محلات میں رہنے والے بادشاہ سلامت اور ان کے خاندان کے افراد کی کلائیوں پر لگی ہوئی گھڑیوں کی قیمت لاکھوں میں ہو گی یہ بادشاہ سلامت اور ان کے خاندان کے افراد کی بات ہے اگر ان سے ملنے والوں کی بات کی جائے تو جہاں تک مجھے یاد ہے پچھلے کئی سالوں سے ان کے حضور جانے والوں میں ایک بھی سفید پوش یا غریب آدمی نہیں بلکہ یوں کہیے کہ غریب کا ان سے کیا تعلق یا وہاں جانے کا کیا مقصد لندن جا کے ملنے والوں کے جوتوں کی بات کی جائے توہ انہوں نے دو لاکھ سے لے کر آٹھ نو لاکھ کے جوتے پہنے ہوتے ہیں اور اس پر تھری پیس بھی چودہ پندرہ لاکھ کا ہو گا اس کے بعد مہنگی گھڑی چشمہ سب الگ ہیں پھر جا کے یہ لوگ لندن میں میٹنگ اٹینڈ کرتے ہیں اور وہاں بیٹھ کے پاکستان کو غربت سے نکالنے کا پلان بنتا ہے غریب کو ریلیف فراہم کرنے کی باتیں ہوتی ہیں خدا کی قسم یہ طبقہ جانتا تک نہیں ہے غربت کس چڑیا کا نام ہے مہنگائی ہوتی کیا ہے اس کے اثرات کیا ہوتے یا متاثر ہونے والے کن مشکلات کا شکار ہوتے ہیں یہ ہمارے نمائندے جو دنیا جہاں کا اخلاق زبان پر سجائے ہماری گلیوں میں آئیں گے نا ان کے پیچھے درجنوں سیکورٹی گارڈ ہونگے درجنوں نہیں ایک دو چار ہی سمجھ لیں ہوتے ہیں نا اور ہونگے اور یہ سب کئی کئی گاڑیوں کا قافلہ لے کر آپ کے گاوں محلے میں آٗیں گے آپ ان کے سامنے چوس فروٹ،و فلٹر شدہ پانی کی بوتلیں رکھیں گے تب ان کے لباس ان کے جوتوں ان کی گھڑیوں ان کی گاڑیوں کی جانب دیکھنا اور پھر اپنے محلے اپنے گاوں اور پھر اپنے اپنے کاندان اور اپنے بچوں کی جانب اور غور کرنا یہ لوگ اسمبلیوں میں جا کر آ پ کی بات کریں گے یا ان کے دفتر جا نے پر وہ آپ کی بات سنیں گے ان کو تو علم ہی نہیں غربت کیا چیز غریب کے بچے زیادہ پنکھا نہیں چلاتے کہیں تنخواہ سے زائد بل نہ آ جائے ان کے نوکر بھی اے سی کے بغیر نہیں سوتے نوکر تو بہت اعلٰیٰ مخلوق ہے ان کے کتے اے والے کمروں میں سو رہے ہوتے ہیں کس وجہ سے ہمارے ووٹوں کی وجہ سے یہ ٹکٹ کے حصول کے لئے کروڑوں روپے کے بیگ اٹھائے پارٹی سربراہان کے در پے لئے کھڑے ہوتے ہیں آپ کی خدمت کے لئے نہیں اقتدار کے لئے نشہ کوئی بھی ہو بہت بُرا ہوتا ہے وہ چرس کا ہو شراب کا ہو یا پھر اقتدار کا اور نشہ کی حالت میں کچھ نہیں آتا غریب تو بلکل نہیں یہ لوگ دوکاندار ہیں ہر پانچ سال بعد آپ کے پاس اپنا سودا لئے حاضر ہوتے ہیں پاکستانی قوم کو اتنے سالوں بعد کھرے اور کھوٹے کی تمیز ہو جانی چاہئے اس کی ان کی داری کو سمجھ لینا چاہئے کم کم از منشور پر گور کے بعد ان کے نعرے لگانے چاہئے ہمیں سمجھ آ جانا چاہئے کہ یہ اشرف المخلوقات اور ہم مخلوق ہیں صرف بات میں صاحب کے آنے سے شروع ہوئی تھی میاں صاحب کے آنے سے بھی کچھ نہیں بدلنے والا یہ سب عوام کو بے وقوف بنانے کی باتیں ہیں پہلے میاں صاحب کے دور میں کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں اور پھر پچھلے سولہ ماہ میں بھی میاں صاحب کے ہی بھائی وزیر تھے بلاول کے ابا اور اماں بھی یہی نعرہ لگاتے رہے مگر پاکستان کو کجا سندھ کے رہائشیوں کو روٹی کپڑا اور مکان نہ مل سکا نہ ہی نئے پاکستان بنانے کے دعوے داروں نے پچاس لاکھ گھر دہئے نہ ایک کروڑ ونوکریاں جو بھی آ یا اس نے ملک و قوم کو بے دردی سے لوٹا اور یا اندر ہو گیا یا بیرون ملک فرار ہو گیا ملک اور قوم غریب اور مقروض ہوتی گئی اور ان کی تجارت کاربار اور بیرون ملک میں جائیدادیں بڑھتی ہی چلی گئیں یہ ایک بار پر کا نعرہ ہمیں اس حال تک لے آیا کے ملک قرضوں میں ڈوب چکا غریب اور غربت کے نام سے لئے گئے قرض کا آدھا حصہ بھی غربت مٹانے پر خرچ کیا ہوتا تو آج حالات یہ نہ ہوتے ہمیں بطور قوم اب سوچنا ہوگا ووٹ کے مقصد کو سمجھنا ہوگا اپنے حقوق کو جانتے ہوئے اس کے حصول کے لئے نکلنا ہو گا آزمائے ہوئے چہروں پر دوبارہ اعتبار کرنا اپنے اپنی قوم اور اپنے ملک کے ساتھ غداری ہو گی بعد میں کسی جماعت یا اس کے نمائندے کو برا بھلا کہنے کی بجائے ہمیں ووٹ کاسٹ کے وقت سب کچھ سوچنا ہو گا ورنہ ہمسایہ ممالک ترقی اور ہم پستی کی منازل طے کرتے رہے گے،

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں