بچہ مادری زبان کیسے سیکھتا ہے ؟؟؟
آج ہم دیکھتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے نام پر ان کو ڈھائی سال کی عمر میں اسکول میں داخل کرادیا جاتا ہے اور بچے کو انگلش سکھانا شروع کر دیا جاتا ہے حالانکہ اس عمر میں بچہ نے اپنی مادری زبان بھی نہیں سیکھی ہوتی اور دوسرا ظلم ہم یہ کرتے ہیں کہ انگلش میڈیم اسکولوں میں بچے کو انگلش سکھانے کی خاطر ان کے دوسرے مضامین اسلامیات،سائنس، معاشرتی وغیرہ بھی انگلش میں پڑھاتے ہیں جس کی وجہ بچے کو نہ انگلش آتی ہے اور نہ ہی دوسرے مضامین۔
ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو (150) گھنٹے درکار ہوتے ہیں لیکن ہمارے تعلیمی نظام پر ایسے انگلش کا بھوت سوار ہے کہ نرسری سے لے کر میٹرک تک ہم تقریباً 1200 گھنٹے انگریزی کو اور دوسرے جو انگلش میں پڑھائے جاتے ہیں وہ شامل کر لیے جائے تو تقریباً 7000 ہزار گھنٹے انگلش زبان کو دیتے ہیں اور یہی حال مدارس کے طلبہ کا ہے وہ عربی کو تقریباً اتنا ہی وقت دیتے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے بچوں کو انگریزی اور عربی نہیں آتی ۔
اس کی وجہ صرف و صرف یہ ہےکہ بچہ نے اپنی مادری زبان نہیں سیکھی ہوتی اور ہم اُسےدوسری زبان لکھائی اور پڑھائی شروع کرادیتے ہیں جس میں بچہ کے سامنے ایسے الفاظ آتے ہیں جس کا بچہ نے تصور بھی نہیں کیا ہوتا اور نہ سنے ہوتے ہیں اور نہ دیکھے ہوتے ہیں جس کیوجہ سے بچہ رٹہ لگا کر ABC تو سیکھ جاتا ہے لیکن پڑھنے لکھنے سے بیزار ہوتا ہے جس کی مثال ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کی تقریباً9 کروڑ آبادی لکھنا پڑھنا جانتی ہے لیکن لکھتی پڑھتی نہیں آخری مرتبہ قلم اُس وقت اُٹھایا تھا جب امتحان کا آخری پرچہ دیا تھا اس کے بعد کسی موضوع پر کچھ لکھنے کی نوبت نہیں آتی اور آخری کتاب بھی وہی آخری کورس میں شامل ٹیکسٹ بک ہی تھی اس کے بعد کوئی کتاب خریدنے کی خواہش ہی پیدا نہیں ہوتی ۔لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم بچوں کو دوسری زبان سکھانے کے لیے بھی
وہی طریقہ اختیار کریں جس طریقہ سے بچہ نے اپنی مادری زبان سیکھی تھی ۔
اب سوال یہ ہے کہ بچہ مادری زبان کیسے سیکھتا ہے؟ تو اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بچہ کے پیدائش سے لے کر اس کے صحیح باتیں شروع کرنے تک کے درجات کا جائزہ لینا ہو گا۔ غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوا کہ بچہ کے زبان سیکھنے کا سب سے پہلا درجہ اس کا رونا ہے وہ رونے کے ذریعے اپنی بات اپنی ماں کو سمجھاتا ہے چھ ہفتے کے بچے کے رونے کی مختلف نوعیتیں ہوتیں ہیں۔ اس کی والدہ سمجھ جاتی ہے کہ اسے کیا مسئلہ ہے بھوک لگی ہے پیٹ میں درد ہے، گرمی لگ رہی ہے وغیرہ وغیرہ اسی لیے ایک سال کی عمر تک اگر بچہ ایک منٹ روتا رہے اور اُس کے رونے پر والدہ اُس کی طرف توجہ نہ دے اور اس طرح مسلسل ہوتا رہے تو اس بچہ کا دماغ متاثر ہوتا ہے اور اُس میں جھنجھلاہٹ پیدا ہوجاتی ہےکیونکہ وہ رونے کے ذریعہ اپنی بات سمجھانا چاہتا ہے لیکن اس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ۔
دوسرے درجے میں بچہ رونے کے ساتھ کچھ اور آوزایں بھی نکالنا شروع کرتا ہے۔ جس میں وہ خوشی ظاہر کرتاہے یا ویسے ہی آوازیں نکال رہے ہیں اس لیے وہ بھی آوازیں نکالتا ہے جس پر ہم چار کام کرتے ہیں۔
1۔ ہم اس کی آوازوں کی طرف توجہ دیتے ہیں
2۔ ہم خوش ہوتے ہیں
3۔ ہم اُس کی طرف متوجہ ہو کر اُس کو دہراتے ہیں۔
4۔ اور اُس کی آوازوں کہ ہم کوئی خاص معنی دے دیتے ہیں کہ یہ مجھے پکار رہا ہے ماں کہتی ہے کہ مجھے آواز دے رہا ہے۔
ان کاموں کے نتیجے میں بچہ مزید آوازیں نکالتا ہےاور آہستہ آہستہ وہ اپنی آوازوں کو دہرانا شروع کر دیتا ہے۔
تیسرے درجے میں بچہ جب ٹھوس کھانوں پر آتا ہے تو وہ چیزوں کے ادھورے نام اور اپنےالفاظ بنا کر باتیں کرتاہے جیسے پانی کو مم، دودھ کو دُو دُو وغیرہ وغیرہ۔
اس وقت ہم بچہ کے الفاظ پر دھیان نہیں دیتے بلکہ ان کی غایت پر توجہ دیتے ہیں وہ مم بولتا ہے تو ہم پانی دے دیتے ہیں اگر اس درجہ میں ہم بچوں کو غلطیان پکڑنا شروع کرے اور ان سے کہیں کہ نہیں پانی بولو پھر پانی دونگی تو بچہ زندگی بھر صحیح بولنا نہ سیکھ پاتا لیکن چونکہ ہم بچہ کی غلطیاں نہیں پکڑتے اس وجہ سے وہ صحیح بولنا سیکھ جاے ہیں۔
چوتھے اور آخری درجہ میں بچہ صحیح بولنا سیکھ جاتا ہے۔ اور اس کی علامت تین چیزیں ہیں۔
1۔ وہ اپنی مادری زبان میں اپنا مسئلہ بیان کر سکے۔
2۔ وہ کون،کب،کیا،کیسے،کہاں،کیوں سے سوال کر سکتا ہے کہ نہیں
3۔ وہ کوئی واقع نقل کر سکتا ہے کہ نہیں
وضاحت: زبان سیکھنے سے متعلق جتنی معلومات یہاں پیش کی گئی اور جو آئندہ ذکر کا جائے گی یہ سلیمان آصف صدیقی صاحب جو ERDC کے بانی ہیں ان کی تحقیق ہے۔