132

فضیل بن عیاض ؒ!رہزن سے راہبر تک/ تحریر/ اعجاز خان میو

ڈاکوؤں کا گروہ ایک قافلہ پر حملہ آور ہوا۔قافلہ میں موجود ایک شخص کسی طرح چھپ چھپاکر اپنا مال و زر لے کر محفوظ کرنے کے لئے جنگل کی جانب دوڑ گیا۔ دور جا کر دیکھا کہ ایک جھونپڑی ہے جس میں ایک شخص عبادت میں مشغول ہے۔ مسافر نے اپنا تمام قیمتی اثاثہ اس کے پاس امانت رکھ دیا اور دوبارہ قافلہ میں شامل ہوگیا۔ جب ڈاکو اپنا کام انجام دے کر روانہ ہوگئے اور قافلہ والوں کو کچھ راحت میسر ہوئی تو یہ شخص اپنا مال و متاع لینے کے لئے دوبارہ جنگل میں جھونپڑی کی جانب چل پڑا۔ دروازہ پر پہنچ کر دیکھتا ہے کہ تمام ڈاکو وہاں موجود ہیں اور وہ زاہد و عابد شخص ان کے درمیان لوٹ کا مال تقسیم کررہا ہے۔ یہ نظارہ دیکھ کر اپنی قسمت پر روتے ہوئے واپس ہونے لگا تو سردار نے دیکھ کر اسے اپنے پاس بلایا اور دریافت کیا:’’ کیوں آئے ہو؟ ‘‘مسافرنے ڈرتے ہوئے جواب دیا :’’ اپنی امانت واپس لینے آیا ہوں۔ ‘‘سردار نے حکم دیا کہ اس کی امانت واپس کردی جائے۔کہتے ہیں کہ ایک موقعہ پر ڈاکوؤں کے اسی گروہ نے ایک قافلہ پر حملہ کیا ۔ دورانِ حملہ سردار گروہ میں موجود نہیں تھا۔ قافلہ کے سربراہ نے ڈاکوؤں سے دریافت کیا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ جواب دیا گیا کہ وہ ابھی ساحل کے کنارے نماز میں مشغول ہے۔ سربراہ نے کہاکہ یہ تو نماز کا وقت نہیں ہے ۔ جواب دیا گیا کہ نفل نماز میں مشغول ہے۔ سربراہ نے پوچھاکہ وہ تمہارے ساتھ کھانے میں بھی شامل نہیں ہے۔ جواب دیا گیا کہ روزہ سے ہے۔ سربراہ نے کہا کہ یہ رمضان کا مہینہ تو نہیں ہے ۔ جواب دیا گیا کہ نفلی روزہ ہے۔ ڈاکوؤں کے سردارابتدائی دور میں اونی ٹوپی پہنتے اور گلے میں تسبیح ڈالے ابیورد اور سرخس (خراسان) کے درمیان ڈاکہ زنی کرتے تھے ۔ غارت گری کا پورا مال تقسیم کر کے اپنے لئے اپنی پسندیدہ شے رکھ لیا کرتے تھے۔اس کے باوجود بڑی تعجب کی بات ہے کہ ایک جانب آپ زاہد و عابد اور نماز روزہ کے پابند تھے اور دوسری جانب آپ راہزنی بھی کیا کرتے تھے۔ نماز کا اس قدر اہتمام تھا کہ اگر ساتھیوں میں سے کوئی نماز میں غفلت برتتا تو اسے گروہ سے نکال دیا کرتے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے آپ بہت بامروت و باہمت تھے جس کارواں میں کوئی عورت ہوتی یا جس کے پاس مال قلیل ہوتا اس کو نہیں لوٹتے تھے اورجس کو لوٹتے اس کے پاس کچھ نہ کچھ مال چھوڑ دیتے۔اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ سے کچھ بعید نہیں ہےاگر وہ چاہے تو ذرہ کو آفتاب بنادے اور چاہے تو چمکتے دمکتے آفتاب و ماہتاب کی روشنی کو ہمیشہ کے لئے گُل کردے۔ وادی غیر ذی زرع کو عالَم کے لئے مرجع بنادے اور سبز و شاداب ، لہلہاتے، چٹختے اور ہرے بھرے کھیت کھلیان کو بنجر بنادے۔ یہ خدا کی قدرت کا ادنیٰ سا کرشمہ ہے ۔چاہے تو سمندر کی چھاتی پھاڑ کر آرام دہ اور محفوظ راستہ بنادے اور اگر چاہے تو جلتے ہوئے تنوروں سے پانی نکال کر سیلاب برپا کردے۔ اگر وہ چاہے تو دہکتے ہوئے شعلوں کو گلِ گلزار کردے اور چاہے تو میٹھے اور صاف و شفاف پانی کو ناقابلِ شرب بنادے۔ اسی ذاتِ باری نے اپنی کرم فرمائی اور نوازش سے ایک راہزن کو راہبر بنادیا۔ قافلوں کو لوٹنے اور ان کو برباد کرنے والے کو امت کا محافظ اور وقت کا راہبر کامل بنادیا۔ ایک ایسی ہی عظیم شخصیت حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں جن کی زندگی بھی خدا کی قدرت کاملہ اور مظہر کا ایک نمونہ ہے۔آپ کا نام فضیل اور کنیت ابو علی یا ابو الفیض ہے۔ سلسلہ نسب فضیل بن عیاض بن مسعود بن بشر التمیمی ہے۔آپ 726 عیسوی میں پید ا ہوئے ۔آپ کا وطنِ اصلی کوفہ ہے لیکن آپ کی جائے پیدائش میں قدرے اختلاف ہے۔بعض نے سمرقند اور بعض نے بخارا بیان کیا ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے تائب ہونے کے واقعہ کو کئی طرح سے بیان کیا جاتا ہے۔تاہم ان تمام کا نچوڑ اور حقیقت یہ ہے کہ آپ ایک مرتبہ کہیں جارہے تھے کہ اچانک آپ کے کانوں میں قرآن کی آواز آئی:’’اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ ‘‘’’ کیا اب بھی ایمان والوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے قلوب اللہ کے ذکر سے لرزنے لگے ۔‘‘ یہ سننا تھا کہ دل کی دنیا بدل گئی۔ ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تائب ہوگئے۔حضرت نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب اس آیت ِمبارکہ’’اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ ‘‘کی تلاوت کرتے تو آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے اور اتنا روتے کہ آپ رضی اللہ عنہ بے حال ہو جاتے ۔‘‘ حضرت فضل بن موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ (توبہ سے پہلے) ڈاکو تھے اور’’ ابیورد‘‘ اور ’’سرخَس‘‘ کے درمیان ڈاکہ زنی کیا کرتے تھے،ا ن کی توبہ کا سبب یہ ہوا کہ انہیں ایک لونڈی سے عشق ہو گیا۔ایک مرتبہ وہ ا س کے پاس جانے کے لئے دیوار پر چڑھ رہے تھے کہ اس وقت کسی نے یہ آیت پڑھی:’’اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ ‘‘جونہی یہ آیت آپ نے سنی تو بے اختیار آپ کے منہ سے نکلا :’’کیوں نہیں میرے پروردگار! اب اس کا وقت آگیا ہے ۔‘‘ چنانچہ آپ دیوار سے اتر پڑے اور رات کو ایک سنسان اور بے آباد کھنڈر نما مکان میں جاکر بیٹھ گئے ۔ وہاں ایک قافلہ موجود تھا اور شُرکائے قافلہ میں سے بعض کہہ رہے تھے کہ ہم سفر جاری رکھیں گے اور بعض نے کہا کہ صبح تک یہیں رک جاؤ کیونکہ فضیل بن عیاض ڈاکو اسی اَطراف میں رہتا ہے کہیں وہ ہم پر حملہ نہ کر دے۔ آپ نے قافلے والوں کی باتیں سنیں تو غور کرنے لگے اور کہا:’’(افسوس) میں رات کے وقت بھی گناہ کرتا ہوں اور(میرے گناہوں کی وجہ سے) مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ یہاں مجھ سے خوفزدہ ہو رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ مجھے ان کے پاس اس حال میں لایا ہے کہ میں اب اپنے جرم سے رجوع کر چکا ہوں۔ اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور اب میں (ساری زندگی) کعبۃُ اللہ کی مجاوری میں گزاروں گا ۔‘‘ راہزنی کے زمانہ میں آپ کا معمول تھا کہ آپ ہمیشہ لوٹی ہوئی رقوم کو لکھ کر محفوظ کرلیا کرتے تھے۔ چنانچہ تائب ہونے کے بعد آپ نے تمام مال و متاع اصل مالکان تک پہنچانے کا ارادہ کیا اور جلد ہی اس کام سے فارغ ہوگئے۔ اس سلسلہ میں ایک یہودی کا واقعہ مذکور ہے کہ اس نے معاف کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میرے تھیلے میں سونا بھرا ہوا تھا۔ ہر چند فضیل بن عیاض نے اس یہودی کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ جو اصل مال تھا وہ میں نے تمہیں واپس کردیا ہے لیکن یہودی اپنی بات پر بضد رہاکہ میں قسم کھا چکا ہوں کہ جب تک سونے کی تھیلی نہیں ملے گی تیرا قصور معاف نہیں کروں گا۔ اس یہودی نے ایک تھیلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ تھیلی مجھے لاکر دو۔ آپ نے وہ تھیلی اسے لاکر دی۔ اس نے کھولا تو اس میں سونا بھرا ہوا تھا۔ اس نے دیکھ کر کہا کہ مجھے یقین ہوگیا کہ تو نے سچی توبہ کی ہےاس لئے کہ یہ تھیلی ریت کی تھی اور میں نے توریت میں پڑھا ہے کہ جس کی توبہ سچی ہوتی ہے اگر اس کے ہاتھ میں ریت بھی ہو تو وہ سونا بن جاتا ہے۔ شیخ فرید الدین عطاررحمۃ اللہ علیہ نے ’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ میں لکھا ہے:’’ جب آپ نے توبہ کی تو آپ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کسی طرح ان لوگوں کو راضی کیا جائے جن کو ہم نے لوٹا اور اذیت دی ہے-چنانچہ آپ رو رو کر اپنے مدعیوں کو راضی کرتے تھے مگر ایک یہودی تھا وہ کسی طرح راضی نہ ہوتا تھا – آخر اس نے کہا کہ میں تب راضی ہوں گا جب آپ یہ تودہ ریت کا یہاں سے اٹھا کر جگہ صاف کردیں۔ اتفاقاً وہ تودہ اس قدر بڑا تھا کہ اس کا اٹھانا طاقتِ بشری سے دشوار تھا – مگر پھر بھی آپ نے اس کو تھوڑا تھوڑا اٹھانا شروع کیا یہاں تک کہ کچھ مدت اس میں مشغول رہے جب آپ نہایت تھک گئے تو ایک رات بہت سخت ہوا چلی تو ہوا نے اس تودے کو اڑا کر ختم کر دیا – یہ معاملہ دیکھ کر یہودی حیران رہ گیا اور آپ کو کہا میرے سرہانے کے نیچے سے کچھ اٹھا لاؤ تا کہ میں تم کو معاف کردوں-آپ نے اس کے سرہانے کے نیچے سے ایک مٹھی سونے کی اٹھا کر اس کو دی جسے دیکھتے ہی اس نے کہا کہ مجھے اسی وقت مسلمان کرو آپ نے اس کا سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ جس شخص کی توبہ قبول ہوتی ہے اس کے ہاتھ کی برکت سے مٹی بھی سونا بن جاتی ہے- میرے سرہانے کے نیچے خاک تھی جو سونا ہوگئی ہے اس سے ثابت ہو گیا کہ تمہاری توبہ قبول ہوگئی اور تمہارا دین سچا ہے۔ دل کی دنیا بدلنے کے بعد آپ حصولِ علم میں مشغول ہوگئے۔ آپ نے وقت کے جن کبار علماء اور ائمہ حضرات سے استفادہ کیا ان میں امام ابو حنیفہ ؒ ، امام شافعی ؒ ،امام اعمش ؒ، لیث بن سعد ؒ، ابن ابی لیلیؒ اور عطاء بن سائب ؒ جیسے محدثین کے نام شامل ہیں۔ شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے :’’ ایک مرتبہ وضو میں سہوا ًکسی عضو کو تین مرتبہ کے بجائے دو مرتبہ دھولیا۔ شب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فضیل یہ تم سے بعید ہے کہ تم میری سنت چھوڑ دو۔ آپ اس ہیبت سے بیدا ر ہوگئے اور پانچ سو نفل نماز ہر دن ایک سال تک کے لئے اپنے اوپر اس کا کفارہ مقرر کرلیا۔‘‘شیخ ابو علی الرازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’میں فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں تیس سال رہا ۔میں نے ان کو ہنستے اور مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا مگر جس دن آپ کا بیٹا علی فوت ہوا تو آپ مسکرائے تو میں نے وجہ پوچھی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس امر کو پسند فرمایا ہے تو میں بھی اس امر کو پسند کرتا ہوں‘‘دنیا کے مال و متاع سے بے رغبتی کا عالم یہ تھا کہ ایک دفعہ جب خلیفہ ہارون الرشید آپ کی زیارت کے لئے حاضر ہوا تو آپ نے اس کو وعظ و نصیحت کی جس کی وجہ سے خلیفہ پرکپکپی طاری ہوگئی- جب وہ واپس جانے لگا تو اس نے ایک ہزار دینار کی تھیلی بطور نذرانہ پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ یہ رقم مجھے اپنی والدہ کے ورثہ سے حاصل ہوئی ہے اس لئے یہ قطعاً حلال ہے آپ رکھ لیں- یہ سن کرآپ نےارشاد فرمایا کہ صد افسوس! میری تمام پندو نصائح بے کار گئیں تم نے ذرا بھی اثر قبول نہیں کیا – میں تو تمہیں دعوتِ نجات دے رہا ہوں اور تم مجھے یہ دینار دے کر ہلاکت میں جھونکنا چاہتے ہو- یہ مال مستحقین کو ملنا چاہیے اس کے بعد ہارون الرشید نے رخصت ہوتے ہوئے اپنے خدمت گار سے کہا کہ یہ واقعی صاحب فضل بزرگوں میں سے ہیں۔بعد ازاں حضرت فُضَیْل بن عِیاض رحمۃ اللہ علیہ کوفہ سے مکہ شریف منتقل ہو گئے اور بقیہ زندگی وہیں گزاردی-آپ کی وفات راجح قول کے مطابق 3 ربیع الاول 187 ہجری ہے۔بعض لوگوں نے ماہ ِ محرم کو ماہ وفات بتایا ہے۔ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران کسی قارئ قرآن کی تلاوت سماعت سے ٹکرائی جو اس وقت سورہ القارعہ کی تلاوت فرمارہے تھے۔ اچانک ایک چیخ بلند ہوئی اور روح پرواز کرگئی۔ آپ جنت المعلیٰ میں آپ مدفون ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر آسمان و زمین رورہے تھے اور ہر سمت سناٹا چھایا ہوا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں