ماں ایک مقدس ہستی ہے اور پیارے نبی ﷺ کے بعد دنیا میں والدین بالخصوص ماں کے رشتے کو بنیادی اہمیت بخشی گئی ہے ﷲ پاک نے اتنی زیادہ اہمیت دی کہ جنت لا کرماں کے قدموں تلے رکھ دی دنیا میں آنکھ کھلتے ہیں ہم جس کا پہلی بار چہرہ دیکھتے ہیں وہ ماں ہوتی ہے اور نومولود نچے کے منہ سے پہلا لفظ ماں ہی نکلتا ہے رب تعالٰی کی جانب سے روز قیامت اولاد کو ماں کے نام سے پکارے جانے کی بات اس کے جنم دینے سے لیکر ہمارے نامہ اعمال کی جانچ تک کے دوران ماں کو واضع اہمیت حاصل ہے ماں ہمارے لیے وہ فرشتہ ہے کہ ہم اس کے ساتھ جیسا بھی سلوک کریں پھر بھی وہ ہمارے لیے فکرمند رہتی ہے ہمارے معاشرے میں کئی بار سنا اور دیکھا کہ اولاد نے اپنی ماں کو پیٹا مگر ماں اتنی شفیق ہے کہ پھر بھی بدعا نہیں دیتی ماں کی اہمیت ایک مالی کی سی ہے جو بیج بوتا ہے اور اسے تناور درخت بناتا ہے اور اسے یہ تک بھی نہیں پتا ہوتا کہ اس کا پھل وہ کھائے گا یا نہیں ایسی صورت میں جب اولاد بڑی ہوتی ہے تو ماں فخرمحسوس کرتی ہے ماں کی قربانیوں کو بھولا نہیں جاسکتا خود بھوکا رہتی ہے مگرہمیں پیٹ بھرکھلاتی ہے مائیں اپنی ذات کیلئے کبھی نہیں سوچا کرتی شاید اسلیئے وہ اپنے حصہ کا کھانا بھی اولاد کو کھلا دیتی ہے بلکہ اکثروہی کھانا کھاتی ہے جواولاد چھوڑتی ہے ۔ماں ہروقت اپنے بچوں کی فکر میں ہی لگی رہتی ہے۔ یہ رشتہ انمول رشتہ ہے ماں اپنے بچوں کودکھ تکلیف پریشانی میں نہیں دیکھ سکتی۔ دنیا میں ماں جیسے رشتے کا کوئی نعم البدل نہیں اور نہ ہی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ماں بچّوں کے عیبوں پر پردہ ڈالتی ہے وہ یہ کھبی بھی نہیں سننا چاہتی کہ اس کے بچّوں میں کوئی خامی یا خرابی ہے۔ ماں کےبغیر ہر انسان ادھورا ہے چاہے وہ بڑا ہو اور بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ ماں کے دل سے جو بھی دعا نکلتی ہے وہ عرش تک پہنچتی ہے۔ ماں کی دعا جنت کی ہوا اور ماں کی دعا کو اللہ تعالیٰ کبھی رد نہیں کرتا ۔ماں وہ ہستی ہے جسے دنیا کے ہر مذہب میں عزت اور احترام حاصل ہے ماں کا احسان انسان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے بہت سارے ایسے لوگ اور شخصیات جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں وہ سب ماں کی دعا کی بدولت ہیں۔ ماں ایک بے دام مزدور کی طرح اپنے تھکے وجود کے ساتھ اپنی فیملی کی خدمت کولہو کے بیل کی طرح کرتی رہتی ہے ہم نے آج تک نہیں سوچا کہ ماں نے کچھ کھایا ہے یا نہیں گھرمیں پھل بھی آتے ہیں تو ماں چکھنے تک انحصارکرتی ہے کہتی ہے میرے بچے کھالیں میری خیر ہے ایسے ہی کپڑوں کی بات کریں تو خودپرانے کپڑوں پر انحصارپراپنی اولاد کیلئے نئے سوٹ لیے بنا سکون نہیں ملتاجتنا صبرماں میں ہے اﷲ پاک نے کسی اور میں رکھا ہی نہیں اگرکچھ ہوبھی جائے توخود سے لڑتی رہتی ہے مگرکسی سے شکایت نہیں کرتی ۔انسان توپھرانسان ہے جانوروں میں بھی مائیں ایسی ہوتی ہے آپ کسی مرغی،بلی یاپرندے کے بچوں کوچھیڑچھاڑکریں تو ماں کتنی غصہ ہوتی کہ بڑے بڑوں کے چھکے چھوٹ جائیں اتنی کمزور ہوکے بھی اپنی اولادکے دفاع میں کسی سے نہیں ڈرتی خودسے سوگنادشمن سے ٹکراجاتی ہے ماء کے کردار پرجس طرح بھی بات کریں کم ہے پاکستان میں 50فیصدمائیں محنت کی پوٹلی اٹھائے حصول رزق کیلئے سڑکوں ،گلیوں،دفاتر،کارخانوں،میں بھٹکتی پھرتی ہیں بیک وقت گھرکے امور اور پیشہ وارانہ زندگی کے ساتھ چل رہی ہیں بلاشبہ ایسی مائیں قابل تحسین ہیں میڈیا کو بھی چاہیے تھا کہ معروف لوگوں یا سیاستدانوں کی ماؤں کے بجائے ایسی ماؤں کی دکھ دردکی کہانیاں چھاپیں یا ایسی ماؤں کے انٹرویو کریں مگرایسی مائیں ہمیشہ نظراندازہوتی ہیں ایسی مائیں رول ماڈل ہیں جو اپنی اولاد کیلئے دفاترکے علاوہ سبزی کاٹھیلہ یاپھل کی ریڑھی لگائے یا سیلزمین یاپھرایک نرس بنے اپنی اولاد کے پیٹ کی بھوک مٹانے کیلئے محنت کرتی ہیں ایسی ماؤں کو اگرٹی وی پر یااخبارات کی زینت بنایا جائے تویقیناًاخبار یا ٹی وی کی ریٹنگ میں فرق نہیں پڑے گا ماں کے چہرے پر مسکان سجاکرہی ہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں
