مرےدل کےگلشن میں فصل خزاں ہے
جہاں تم نہیں ، وہ بھی کوئ جہاں ہے
یہ ہر سو ہے کانٹوں پہ لیبل گلوں کا
تبھی میری آنکھوں سے دریا رواں ہے
ترے پاس اگر ہےجہاں بھر کی دولت
مرے پاس بھی باپ ہے اور ماں ہے
ہر اک پل طبیبوں نے خنجر چھبوئے
ہے فرمانِ دلبر ، مرا امتحاں ہے
قیامت ہی برپا ہے جلوؤں سے اس کے
جو لاکھوں حجابوں میں “زائر” نہاں ہے