90

اہل قدس سے تعاون کی ممکنہ صورتیں/تحریر/محمد اسامہ عبد الصبور

پاکستان، مسلم امہ کا دفاعی مورچہ تھا۔ پچھلے وقتوں میں دنیا کے کسی کونےپر مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو نظریں پاکستان کی طرف اٹھتی تھیں۔
مظلوموں کو امید ہوتی تھی کہ ہمارے حق میں اگر مسلم کمیونٹی سے موثر آواز بلند ہوسکتی ہے، تو وہ پاکستان ہی ہے۔ لیکن افسوس! ہرگزرتے دن کے ساتھ یہاں کے مقتدر حلقوں سے وہ احساس و درد مفقود ہوتا چلا گیا۔ حتی کہ رفتہ رفتہ عوام بھی اس دلدل میں ڈوب گئے۔ جانے کس کی نظر بد لگ گئی؟

ایٹمی طاقت بننے پر پوری ملت اسلامیہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، کیوں کہ پوری مسلم امہ اسے اپنے لیے خیر کا ذریعہ سمجھنے لگی۔ اہل قدس اس خوشی میں کچھ زیادہ ہی شریک تھے۔ انھیں یقین تھا، اب وہ اکیلے نہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے آزادی پاکستان کے موقع پر تاریخی الفاظ سے اہل قدس کے موقف کی حمایت کی تھی کہ ۔”اسرائیل، امت کے قلب میں خنجر گھسایا گیا ہے۔ یہ ایک ناجائز ریاست ہے۔جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا”۔
قائد اعظم کے ان تاریخی الفاظ اور عوام کے شدید دباؤ کی وجہ سے پاکستان ہمیشہ سے اسرائیل کو اب تک تسلیم کرنے سے باز رہا۔ جب کبھی ان تاریخی الفاظ پر گرد پڑنے لگتی ہے، اسرائیلی گماشتے بدی کی امید لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن مذہبی شخصیات کے ردعمل اور عوامی دباؤ سے پھر یہ آوزیں کچھ عرصے کے لیے پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔

7اکتوبر کے بعد سے اب تک اسرائیل اور اس کی پشت پر کھڑے دیگر ممالک نے غزہ پر قیامت ڈھا کر رکھی ہے۔
تمام تر عالمی پابندیوں اور قوانین کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ بے قابو ریچھ بن کر غزہ کے مظلوموں پر مسلط ہے۔ پانی کی بوند،کھانے کا لقمہ ان سے چھین لیا گیا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں بچے، بوڑھے اور نوجوان زندگی بازی ہار چکے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ سر ڈھاپنے کو چھت نہیں، ہر سمت خون ہی خون ہے۔مساجد، مدارس، اسپتال سب کو مٹی میں ملا کر رکھ دیا گیا ہے۔ ان قیامت خیز مناظر کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بے بسی کا یہ عالم کبھی دیکھنے کو نہ ملا ہو گا۔ مسلم امت اتنی بڑی کثرت کے باوجود کچھ خاص کر نہ سکی۔ خاص طور پر اہل پاکستان، جن کی جانب اہل قدس کی نظریں ہمیشہ اٹھتی رہی ہیں۔ اب رہائشی کیمپوں پر بم برسائے جارہے ہیں۔ حالات پہلے سے بھی زیادہ سنگین ہیں۔ مسلمان حکام صرف تماشہ دیکھ رہے۔اسرائیل فلسطین کی نسل کشی میں لگا ہے۔ دوچار مقامات سے کمزور سی آواز بلند کرنے سے اس بپھرے ہوئے ریچھ کو بھلا کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟ جس معیشت پر اسے غرور ہے، اسی کے بل بوتے پر نسل کشی کر رہا ہے۔ اس کی پروڈکٹس آج بھی ہم خوب مزے استعمال کرتے ہیں۔ اس کی مصنوعات سےدکانیں، بازار اور گھر آج بھی بھرے پڑے ہیں۔ بحیثیت مسلمان نہیں بلکہ انسان ہونے کے ناتے ہم پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ مثلاً اس کی تمام مصنوعات سے مکمل بائیکاٹ کیا جائے اور متبادل پاکستانی مصنوعات کو فروغ دیا جائے، اپنے ملک و ملت اور اپنی کمپنیز کو مضبوط کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور موثر احتجاج اور مظاہرے کیے جائیں۔ اس سلسلے کو کسی صورت مدھم نہ پڑنے دیا جائے۔ تیسرا یہ کہ اہل غزہ سے ہر ممکن امداد اور تعاون کیا جائے۔ نیز ایسی تمام کمپنیوں اور اداروں سے بائیکاٹ کیا جائے، جنھوں نے کسی بھی طرح سے اسرائیل کے اس اقدام میں مدد کی ہے۔ یوں ہم بطور امت مسلمہ یک جان ہو کر اہل قبلہ اول کے نہ صرف کام آ سکتے ہیں، بلکہ خون آشام درندے یعنی اسرائیل کا ناطقہ بھی بند کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان مظلوم و معصوم بچوں اور عوام الناس کے لیے انفرادی و اجتماعی دعاؤں کا بھی زیادہ سے زیادہ اہتمام کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں