128

دور حاضر میں علم دین کی ضرورت و اہمیت/تحریر محمد اسامہ پسروری

دور حاضر میں علم دین کی اہمیت اور اس کی ضرورت شدیدترین حد تک بڑھ گئی ہے ۔ اس بات کا موجودہ صورت حالات کے مطابق بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ اس وقت اسلام کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے ، یہ فتنوں کا دور ہے ، برائیوں کے عروج کا فتنہ ، اولاد کی بے دینی و نافرمانی کا فتنہ عورت کا فتنہ مال و دولت کا فتنہ ، کفر اور اہل کفر کا فتنہ ، شرک و بدعت کا فتنہ ، عیش پرستی کا فتنہ ، الحاد کا فتنہ وغیرہ
ان ساری صورت حال سے مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں علم دین سے آراستہ ہونا پڑے گا۔ الحمد للہ علم دین عمر کے کسی حصے میں بھی سیکھ سکتے ہیں ۔ مرد وعورت اور بچے سبہی عمر والے علماء کی رہنمائی میں علم دین بآسانی سیکھ سکتے ہیں ۔ ہمارا دین نہایت ہی آسان ہے ۔
اس بات کو رب العالمین نے قرآن مجید میں اور نبی کریم ﷺ نے حدیث پاک میں کئی مقامات پر واضح کیا ہے اس وقت یقین کریں علم دین کی سخت سے سخت ضرورت ہے ۔ قرآن کو فہم وتدبر سے جاننے کی ضرورت ہے تاکہ ہم دین پر صحیح سے عمل کرسکیں ، اسلام اورمسلمانوں کے سامنے جو چیلنجز ہیں ان کا دندان شکن جواب دے سکیں ، سوشل میڈیا کے ذریعہ اسلام کی جس طرح غلط ترجمانیاں کی جارہی ہیں ان کا خاتمہ کر سکیں اور دنیا و آخرت میں زندگی کی اصل ترقی سے ہمکنار ہوسکیں۔
*یہ سب کیسے ممکن ہے*
یاد رکھیں یہ سب اس وقت ممکن ہے جب ہم کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کا علم حاصل کریں گے ۔ آپ کو عصری علوم سے کوئی نہیں روکتا ، بلاشبہ ہمارے لئے عصری علوم کی بھی ضرورت ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ علم دین کی ضرروت ہے۔ علم دین ہی سے حلال و حرام کی تمیز ہوسکتی ہے، مقصد تخلیق کی ادائیگی کا راز علم دین کے حصول میں ہی چھپا ہوا ہے،
یہی وہ علم ہے جسے اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اقرأ کے ذریعے سکھلایا ہے لہذا ضرورت ہے کہ ہم علم دین سے روگردانی کے بجائے اس کی اہمیت ضرورت اور افادیت کو تسلیم کریں نہ صرف تسلیم کریں، بلکہ اس سے مضبوط رشتہ استوار کریں علم دین کے حصول میں اپنے آپ کو اپنی اولاد کو اپنے خاندان کو تیار کریں۔ اگر ہم آج اس سے روگردانی کریں گے تو شاید آنے والی نسلوں کا دین اسلام اور شریعت محمدی صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر باقی رہنا مشکل ہوجائے گا۔
ہجرت مدینہ کے فوری بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ مسجد کی تعمیر تھا جس میں اصحاب صفہ قیام پذیر ہوتے تھے اور یہ اسلام کی پہلی اقامتی یونیورسٹی تھی ۔
ہر مسجد مدرسہ بن گئی اور صرف مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حیات طیبہ میں نو مساجد کی موجودگی کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ طبری کی یہ روایت بھی قابل ذکر ہے
یمن کے لیے تعلیم کا ایک انسپکٹر جنرل بھیجا گیا جو ایک سے دوسرے ضلع تک مصروف سفر رہتا اور اس دوران نہ صرف تدریسی فرائض سرانجام دیتا بلکہ تعلیمی ادارے بھی قائم کرتا۔
ہمیں چاہیے کہ ہم رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنائیں اور اس پر عمل کریں اور اپنی نئی نسل کو علم دین کے لیے تیار کریں تاکہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کرسکیں اور جو آج کل نئے نئے فتنے سر اٹھا رہے ہیں ان سے مکمل طور پر بچ سکیں ۔

*امت مسلمہ کی ذمہ داری*

ایسے حالات میں امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کی پرورش شریعت اسلامی کے مطابق کرے، ان آستین کے سانپوں سے نئی نسل کو بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ عناصر مسلم بچوں کو دینی تعلیم سےمحروم رکھنا چاہتے ہیں۔ نئی نسل کو مرتد بناکر ان کو ایمان سے محروم کرکے یا صرف نام کا مسلمان بناکر دوزخ کا ایندھن بنانا ان تحریکوں کا اصل مقصد ہے اور پھر اس قسم کے مسلمانوں کو سیکولر مسلمان کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں ہم مسلمانوں کو چوکنا رہنا چاہئے اور یہ بات ذہن میں بسا لینا چاہئے کہ ہم نئی نسل کو دینی تعلیم سے دور رکھ کر ان کے دین و ایمان کو مستحکم نہیں کر سکتے۔ اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ دل دہلانے والے واقعات آئے دن ہم سب کو پڑھنے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جرائم کا ارتکاب، والدین کا قتل اور ان پر جان لیوا حملے دین سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک علم دین کی صحیح قدردانی کی توفیق عطا فرمائے اور مادیت کے اس خطرناک دور میں علم دین کی شمع کو ہر تاریک گھر میں پہنچائے.
*یزدکم قوۃ الی قوتکم*

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں