99

نصف ایمان/تحریر/سبین عباس

سنت ابراہیمی کی ادائیگی ہمارا سب سے بڑا اسلامی تہوار ہے۔ جہاں قربانی کے جانوروں کی گلی محلوں میں رونقیں لگی ہوتی ہیں اور بچے بڑے سب ہی اس گہما گہمی میں مگن نظر آتے ہیں، وہیں باقاعدہ مقابلہ بھی ہو رہا ہوتا ہے کہ کس کا قربانی کا جانور ذیادہ تکڑا اور مہنگا ہے۔ قربانی کی اصل روح جو سنت ابراہیمی کی تعلیم دیتی ہے وہ تو زمانہ ہوا پرواز کر چکی ہے اب تو صرف مقابلے بازی رہ گئی ہے۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ کس کس کا حق مار کر لوگ فخریہ قربانی کرتے ہیں،لوگوں کا سارا زور اس بات پہ ہوتا ہے کہ قربانی کےجانور میں کوئ خرابی نہ ہو،کیا یہ بھی سوچتے ہیں کہ جس کی کمائ سے یہ جانور خریدا جا رہا ہے اس شخص کی کمائ اور اس کے معاملات میں بھی کوئ خرابی نہ ہو،حقوق اللّٰہ کی ادائیگی کی نیت میں تہنیت و پاکیزگی اسی وقت آ سکتی ہے جب حقوقِ العباد میں کوتاہی نہ ہو!
ہمارا دھوبی اس سال چار لاکھ کا اونٹ لایا ہے، بقول اس کے باجی میرے اونٹ کو لوگ دور دور سے دیکھنے آتے ہیں ،پورے محلے میں بڑی ٹور ہے ۔ میں اس سے بارہا کہتی ہوں کہ تم اپنے بچوں کو پڑھاتے کیوں نہیں؟ تو وہ مسکین صورت بنا کر کہتا ہے ، “باجی پیسے ہی نہیں بچوں کی تعلیم کے لئے” اور پھر قربانی کے اونٹ کی ٹور کی لمبی لمبی کہانیاں سناتے ہوئے اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پہ ایک فخر ٹپکنے لگتا ہے۔ بچوں کا بنیادی حق انکی تعلیم کو نظر انداز کر کے،اس فرض کو چھوڑ کر صرف سنت پر زور ہوتا ہے،بہرحال سب کی اپنی ترجیحات ہیں!
جو لوگ ہزاروں لاکھوں قربانی پہ خرچ کرتے ہیں ان لوگوں سے اتنی گذارش ہے کہ چند سو روپے قربانی کے بعد پھیلنے والی غلاضت کی صفائی پر بھی ثواب سمجھ کر کردیا کریں۔
کراچی کے گلی محلے عید الضحیٰ کے دنوں میں عجیب منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ کم و بیش ہر گھر کے آگے بکرے، گائیں اور کہیں کہیں اونٹ بندھے ہیں۔ جگہ جگہ گوبر، مٹی کے ڈھیر اور مینگنیاں بکھری پڑی ہیں جن کی بدبو چارے اور بھوسے کی بو کے ساتھ ملکر سانس لینے میں بھی دشواری کا سبب بن رہا ہوتا ہے،سڑکوں اور گلیوں پر جانوروں کا کھلے عام کاٹنا ایک ایسی روایت ہوگئی ہے کہ اسے منع کرنے والا ہی اب ’عجیب‘ لگتا ہے۔ ذبح کئے گئے جانور کا خون گھروں کے آگے دیر تک جمع رہتا ہے۔ جانوروں کی آلائش یا اوجھڑیوں پر حشرات الارض اکھٹا ہوجاتے ہیں۔ شہر میں بلدیاتی اور صفائی کے ذمے داروں اور اداروں کی کمی اور عدم توجہی کی وجہ سے کچرا کنڈیاں بھری رہتی ہیں، خاکروب جہاں سے پیسے ملتے ہیں بس وہیں ’مصروف‘ نظر آتے ہیں اس لئے مجموعی نظام صفائی بری طرح متاثر ہو تا ہے،اور اگر اس دوران بارش ہوجاۓ تو سونے پی سہاگہ کا منظر پیش ہو جاتا ہے۔
کیا اس گندگی و غلاظت سے بچنے کا کوئ حل یا کوئ ایسا منظم نظام بن سکتا ہے؟
حکومتی اداروں کی جانب سے جانورں کے عارضی قیام گاہوں کے خصوصی انتظامات کئے جائیں کچھ محلوں میں لوگ اپنی طور
پر ایسا کرتے بھی ہیں خاص طور پر فلیٹوں کے مکین۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی اور دیگر شہری ادارے بھی ماڈل کے طور ان اداروں کی طرح کے عارضی ذبح خانے قائم کرسکتے ہیں۔ بیشک وہ مالکان سے اس کے مناسب چارجز وصول کریں ۔ اس طرح شہر کو صاف ستھرا رکھنے میں مدد تو ملے گی ہی حفظان صحت کے اصولوں پر قربانی کے جانوروں کا گوشت بھی بلاخوف و خطر استعمال کیا جاسکے گا۔ عارضی قربان گاہیں علاقہ مکینوں کو قربانی کی صاف ستھری اور آسان سہولت فراہم کرسکیں گے اور اپنے ارد گرد کمیونٹی کے لئے ایک غیر آلودہ اور صحت مند ماحول کو بھی یقینی بنانے کا موقع ملے گا۔
اگر حکومت ،عوام کی بھلائی کے لئے گلی محلوں میں جانور قربان کرنے پر پابندی عائد کر بھی دے اور قربانی کے لئیے مخصوص کئ گئی جگہ پر قربانی کرنے کا پابند کر دے تو بھی مسئلہ تو ہم لوگوں میں ہی ہے ،اس نظام پر عمل کون کرے گا؟ باہر کے ملکوں میں بھی دور کیوں جائیں سعودیہ یا مشرق وسطی میں ہی دیکھ لیں، مجال ہے کہ کوئ اپنے گھر کے باہر جانور باندھے یا اس کو ذبح کر کے اس کا خون اور آلائشیں گلی محلوں میں ڈھیر لگا دے۔ خدارا اپنی سوچ بدلیں،ہمارا تو آدھا ایمان ہی صفائی و پاکیزگی پہ ٹکا ہے ، کیوں نصف ایمان کی بربادی پہ تلے ہیں؟ محلے کے لوگ قربانی کے اس عظیم فریضے اور تہوار پر انفرادی اور اجتماعی کوششوں سے جانوروں کی گندگی ، خون اور آلائشوں کی غلاظت کی صفائی کا منظم اور مربوط نظام بنایا جاسکتا ہے۔ ضرورت ہے صرف سوچ بدلنے کی ! اللّٰہ ہم سب کو ہدایت دے ۔
آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں