20 جون کو مدین، سوات میں ایک اندوہناک سانحہ رونما ہوا۔ وہاں کے ایک ہوٹل میں رہائش پذیر سیاح محمد اسماعیل ولد قمر عزیز، جو سیالکوٹ سے آیا ہوا تھا، پر مبینہ طور پر قرآن کریم کو (نعوذ باللہ) نذر آتش کرنے کا الزام لگایا گیا، جس کو، بعد ازاں، تھانے لے جا کر پولیس کے حوالے کیا گیا۔ دوران حراست ملزم نے توہین مذہب سے انکار کیا اور بار بار کلمہ طیبہ پڑھتا رہا۔ ایس ایچ او مدین اسلام الحق بتاتے ہیں کہ انہوں نے ملزم سے پوچھا کہ کیا تم قادیانی ہو؟ تو ملزم نے جواباً کہا کہ ’’نہیں، الحمداللہ میں مسلمان ہوں۔‘‘ ایس ایچ او نے پوچھا کہ تم نے قرآنِ مجید کو شہید کیا ہے؟ تو ملزم نے انکار کیا اور کہا کہ ’’میں مسلمان ہوں، الحمدللہ، نمازی ہوں، میں کیوں قرآن شریف شہید کروں گا؟‘‘ مساجد میں سانحے کے اعلانات ہونے کے بعد، ایک مشتعل، بے قابو ہجوم نے قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے تھانے پرحملہ کر کے اس کو آگ لگادی اور 9 گاڑیوں، 10 موٹر سائیکل اور دیگر ساز و سامان کو بھی جلا دیا۔ مشتعل افراد نے ملزم کو پولیس اسٹیشن میں ہی نہ صرف قتل کیا بلکہ باہر سڑکوں پر گھسیٹ کر جلا بھی دیا۔ پورا مجمع زندہ باد کے نعرے لگاتا رہا۔ ملزم کو جلانے کے لیے پہلے سے لکڑیاں موجود تھیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے، یہ اب تک ثابت نہیں ہوا ہے کہ متاثرہ شخص نے قرآن مجید کو، نعوذ باللہ، نذر آتش کیا تھا یا نہیں، لیکن یہ تصدیق ہو چکی ہے کہ ہجوم نے جس پولیس اسٹیشن کو آگ لگا ئی، اس میں کئی قرآنی نسخے موجود تھے۔ اس کی اطلاع مقامی میڈیا نے دی ہے۔ جی ہاں، میں بھی اس بات پر متفق ہوں کہ اس طرح کے مکروہ فعل کرنے پر مجرم کو قانون کے حوالے کرنا چاہیے، ثبوت پولیس کو دیں، اگر الزام توہین ثابت ہوجائے تو گستاخِ رسول اور گستاخ اسلام کو قانون نافذ کرنے والے اداریے قانون کے مطابق سزا دیں، نہ کہ ہر آدمی اپنی عدالت وکالت شروع کر دے۔ بہر حال، کیس چونکہ ہائی پروفائل اور توجہ طلب ہے اس لیے ہر زاویہ سے تفتیش و تحقیقات اور محرکات کا جائزہ کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر علامہ راغب حسین نعیمی نے سوات واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا: ”یہ انتہائی گھناؤنا فعل ہے۔ کسی بھی فرد یا گروہ کو شرعی، قانونی اور اخلاقی طور پر کسی بھی شخص کو سزا کی اجازت نہیں۔ سوات، سرگودھا، جڑانوالہ اور سیالکوٹ کا عمل کسی طرح شرعی نہیں اور نہ ہی قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ شرعی طور پر کسی کو جلا کر مار دینے کی بہت بڑی سزا ہے۔“
چند سنجیدہ سوال جواب طلب ہیں۔ توہین قرآن کی سزا قرآن و سنت میں کیا مقرر ہے؟ قرآن و سنت میں مقرر کردہ سزا کے استحقاق کے کیا لوازمات ہیں؟ توہین قرآن کب واقع ہوتی ہے؟ مطلق احراق سے اہانت قرآن ثابت ہوجاتی ہے؟ یا احراق کے ساتھ توہین کا قصد و ارادہ بھی ضروری ہے؟ توہین قرآن کے ثابت ہوجانے کے بعد سزا کا نفاذ کس کا حق ہے؟ سزا کا حق ریاست کا یا پھر ہجوم اور جتھوں کے سپرد ہے؟ ماضی قریب میں رو نما ہونے والے سانحے مثلاً سوات، جڑانوالہ، سرگودھا اور سیالکوٹ، ان کے پس پردہ کون سے عوامل کار فرما ہیں؟ ان کے حقیقی ذمہ دار کون ہیں؟ کس نے ہجوم کو مشتعل بنانے کی ہوشیاری سے منصوبہ بندی کی تھی؟ ان افسوسناک واقعات سے اسلام کی شبیہ کس قدر متاثر ہورہی ہے؟ کیا ایسے واقعات امت مسلمہ کے لیے باعث شرم نہیں؟ کیا الحاد/ مذہب بیزاری کا ایک سبب یہ بھی تو نہیں؟ آخر اس تسلسل کا سدباب کیسے کیا جاسکتا ہے؟ مذہبی علماء کی اس بارے شرعی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی بھی ہے یا نہیں؟ اگر ہاں، تو وہ یہاں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ کیا اس واقعہ میں آپ کو کچھ بھی عجیب نہیں لگتا؟ سیالکوٹ کے رہائشی نے، نعوذ با للہ، قرآن مجید کی بے حرمتی کے لیے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر دور وادی سوات میں مدین کا مقام کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ کیا یہ ناپاک جسارت وہ اپنے شہر میں نہیں کرسکتا تھا؟ اس شخص نے مسلمان ہوتے ہوئے بھی قرآن کی بے حرمتی کیوں کی؟ قرآن کی بے حرمتی کرتے وقت کے شواہد کہاں ہے؟ ابھی تک عوام کے سامنے نہیں آئے۔ جب پولیس نے گرفتار کر ہی لیا تو مساجد اور بازاروں میں اعلانات کر کے عوام کو مشتعل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اسلام اتنا سخت مذہب کہ کسی ملزم کو سنوائی یا اپنی صفائی بیان کرنے کا حق نہیں دیتا؟ اگر خدانخواستہ، اس نے بے حرمتی کی تو کیا اس بندے سے اس بے حرمتی کرنے کی وجہ پوچھی گئی؟ کیا وہ ذہنی طور پر درست تھا؟ کسی ذہنی بیماری یا نشے کا شکار تو نہیں تھا؟ قرآن مجید کے اوراق برآمد ہو جانے سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ گستاخی ہوئی ہے مگر یہ کہاں سے ثابت ہو گیا کہ مقتول ہی نے کی؟ اور اگر، بالفرض، اس نے گستاخی کی بھی تھی تو اسے قتل کرنے اور زندہ جلانے کا حق ان جاہلوں کو کس نے دیا؟ یہ سارے سوالات کرنے کی بجائے پورے علاقے کو اشتعال انگیز بنانا نہ تو اسلام ہے نہ انسانیت۔ مدین، سوات کا اندوہناک سانحہ، گستاخ قرآن کی سزا فتاویٰ اور آئین پاکستان میں کیا ہے؟ پچھلے چند ماہ میں عدالتوں نے توہین مذہب و قرآن کے کتنے مجرموں کو سزا سنائی؟ کیا یہ لوگ قرآن مجید کے لیے شریعت اور تعلیمات نبوی سے زیادہ غیرت مند ہیں؟
مقامی ذرائع کے مطابق اس عمل میں ایک ’’مذہبی گروہ‘‘ ملوث تھا۔ کم علم و عقل لوگ اس بات پر خوش ہوں گے کہ مسلمانوں نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ کاش، اس سانحہ میں ملوث افراد مستند علمائے دین سے رہنمائی و احکامات لیتے اور اس پر عمل کرتے تو یہ سانحہ نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کا کھلے عام رد کرتے وقت لوگوں کی مسلمانی کہاں ہوتی ہے؟ اللہ کا خوف کرو، قرآنی احکام پڑھو، لگ پتہ جائے گا کہ کتنا بڑا جرم کیا ہے۔ اب گرفتاری کے ڈر سے زیادہ تر نام نہاد عاشقان روپوش ہو گئے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر کون مسلمان ہوگا؟ جس دین کے خاطر محمد رسول اللہﷺ نے تکالیف برداشت کیں، طائف میں پتھر کھائے، نعلین مبارک خون آلود ہوئے، لیکن پھر بھی، جب فرشتے نے عرض کی کہ آپ حکم کریں تو ان لوگوں پر پہاڑ گرا دوں۔ لیکن اللہ کے رسولﷺ نے جواب دیا ”نہیں، یہ لوگ ابھی نہیں جانتے۔“
کاش کہ مسلمان قرآن کریم پر عمل کرنے میں بھی اتنے ہی جذباتی ہوتے۔ یہ ہمارے اندر ایمان پر سوالیہ نشان ہے۔ ہم سب کو اس مشتعل ہجوم کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح سری لنکن شہری کو بھی اپنی عداوت کی بھینٹ چڑھایا تھا اور نام گستاخی کا استعمال کیا گیا۔ اس نازک معاملے پر علمائے حق کو کھل کر بولنا چاہیے۔ باشعور طبقہ اس واقعہ پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور مذہبی شدت پسندی اور گروہی دہشت گردی ختم کرنے کے لیے مناسب اقدمات کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس وحشیانہ سماجی مزاج کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ کو عوام کے سامنے لایا جائے اور اس وحشت ناک اور خطرناک کھیل میں ملوث افراد کو مستقبل کے لیے نشان عبرت بنا دیا جائے۔ اب جب کہ سارے صوبے ایک پیج پر آنے کی کوشش کر رہے ہیں، ملک دشمنوں کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں، کہیں یہ نفرت پھیلانے کی کوئی چال تو نہیں؟ بے شک، اس میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ ذرا نہیں، مکمل سوچیے۔