آج ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پولیس یا ادارے ہمارے محافظ ہیں ،انہیں کوئی شوق نہیں آپ پر بلاوجہ لاٹھی چارج یا شیلنگ کریں، ایسی صورتحال میں نوجوان بچے بچیاں کم عمر تھے ،ان کے والدین کو انہیں سڑکوں پر احتجاج سے منع کرنا چاہیے تھا، البتہ اگر طلبا یا کوئی بھی طبقہ کسی سچی بات پر حکومتی اداروںکی نا انصافی پر سڑکوں پر نکلتا ہے تو یہ بات کسی صورت سمجھ میں آتی ہے۔
حال ہی میں پاکستان میں شدت سے “پنجاب کالج زیادتی کیس” گردش کررہا ہے بتایا گیا ہے کہ ایک فرسٹ ائیر کی طالبہ کے ساتھی گارڈ نے زیادتی کی اور وہ طالبہ زخموں کی تاب نہ لاتی ہوئے چل بس،کسی بھی ملک میں انصاف کے لیے ادارے قائم کیے گئے ہیں، پولیس اسٹیشنز عوام کی فلاح وبہبود کیلئے قائم کیے گئے ہیں ایسا کوئی واقع رونما ہوا ہوتا تو سب سے پہلے پولیس کو خبر کی جاتی، مگر ایسا نہ ہوسکا کسی سیاسی جماعت نے کسی اور کیمپس کے طلبہ طالبات کو بھڑکایا اور وہ سڑکوں پر انصاف مانگنے نکل آئے۔
ۓ پر امن احتجاج کا حق ہر کسی کو حاصل ہے لیکن جس طرح طلبا کا ذہن خراب کیا گیا انہیں اشتعال دلایا گیاطلبہ نے ایک غلط فہمی کے رہتے کالجز کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا اور تمام پنجاب کالجز کو توڑ کر تباہ و برباد کردیا ،یہ وہی طلبا ہیں جو مستقبل کا سرمایہ ہیں ،جنہوں نے کل کو ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھالنی ہے ،لیکن انہیں طلبہ نے اپنے ہاتھ میں قلم کی بجائے ڈنڈا اٹھا لیااور کہنے لگے ہم انصاف لینے آئے ہیں؟
جب آپ اداروں پر، عدلیہ پر اور پولیس پر یقین نہیں رکھتے، اشتعال انگیز کو گر برہمانہ حرکتیں کرتے ہیں تو پولیس لاٹھی چارج ضرور کرتی ہے۔ کالجز میں احتجاج کرنے والے طلبا اور طالبات کی ذہنی حالت دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے وہ اساتذہ سے متنفر ہیں اور کسی بھی صورت ان کی بات ماننے کو تیار نہیں ،طلبا اساتذہ کو گالیاں دیتے رہے اور اپنے چمن گاہ کو اپنے ہی ہاتھوں سے اجاڑتے رہے، ہم بطور مسلمان انسان اور ایک باشعور شہری ہونے کے ناطے کہاں کھڑے ہیں ؟، جہالت کے کنارے پر نوجوان ہو یا بوڑھا ،سوشل میڈیا کی چنگاری کو منٹوں میں درست سمجھ کر اس پر ایکشن لینا شروع کردیتا ہے اور اپنی عدالت لگانا شروع کردیتا ہے اس بار طلباء سڑکوں پر عدالت لگانا چاہتے ہیں، نوجوان بچے بچیوں کا سڑکوں پر نکلنا بے حد غلط تھا اگر موجودہ صورت حال میں وہاں کسی بچے اور بچی کی غلط حرکات کا جائزہ لے لیا جاتا یا کوئی بھی غلط واقع رونما ہو جاتا تو پھر پولیس اور انصاف ٹارگٹ کیا جاتا ،ادارے ٹارگٹ کیے جاتے ۔
آج ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پولیس یا ادارے ہمارے محافظ ہیں ،انہیں کوئی شوق نہیں آپ پر بلاوجہ لاٹھی چارج یا شیلنگ کریں، ایسی صورتحال میں نوجوان بچے بچیاں کم عمر تھے ،ان کے والدین کو انہیں سڑکوں پر احتجاج سے منع کرنا چاہیے تھا، البتہ اگر طلبا یا کوئی بھی طبقہ کسی سچی بات پر حکومتی اداروںکی نا انصافی پر سڑکوں پر نکلتا ہے تو یہ بات کسی صورت سمجھ میں آتی ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اس کیس کو ہینڈل کرنے کے لیے کمیٹی بنائی جس کی رپورٹ طلب کر لی گئ ہےاور انکی جانب سے پریس کانفرنس میں سب کچھ کلئیر کردیا گیا ہے کہ ایسا کوئی واقع رونما ہوا ہی نہیں اگر کوئی ایسی بچی موجود ہے توہمیں شواہددیں۔ایک بچی جس کو چوٹ لگنے کے باعث وہ آئی سی یو میں شفٹ ہوئی اسی کو ریپ وکٹم بتایا گیا جو کہ سراسر جھوٹ تھا۔ اس بچی کی میڈیکل رپورٹس ،دتحریری بیان کالج کی سی سی ٹی وی فوٹیج سب مہیا کی گئ ہیں۔ عوام کی بیشتر آراء رہی ہیںکہ اس مذکورہ بچی کے والدین کو ڈرایا دھمکایا گیا جسکی وجہ سے وہ منظر عام پر نہیں آسکے ۔
ایک لمحہ کو مان لیا جاتا ہے کہ ایسا ہوا ہے تو سوال یہ ہے کسی اسپتال یا کلینک نے ریپ وکٹم کو تو ڈیل کیا ہوگا جب کہ پولیس کو کوئی شواہد نہ مل سکے ،اگر اسکی وفات ہوگئ ہے تو کسی نے جنازہ تو پڑھایا ہوگا محلے دار تو شامل ہوئے ہونگے ،آخر کوئی ایک فرد تو ایسا آئے جسے معلوم ہو کہ ہاں فلاںبچی فلاں وقت پر وفات پا گئی ہے اور میں اس کا جنازہ پڑھ کر آیا، آج کی عوام اگر اشتعال انگیزی میں احتجاج کرنے کی طاقت رکھتی ہے تو انہیںان کی اس طاقت سے کوئی محروم نہیں کرسکتا۔مگر کوئی شخص تو اس بچی کو دیکھ کر بتاتا ۔چلیں عوام کے مطابق اداروں نے کیس کو دبا لیا لیکن کیس جتنا بھی چھپے عوام سراغ لگا لیتی ہے۔
سوشل میڈیاکا زمانہ ہے اگر کسی نےہسپتال یا جنازہ گاہ یا کسی بھی جگہ ایسی بچی کو دیکھا تو کیا وہ بچی کے بارے معلومات مہیا نہ کرتا ،ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ واقعی ہی ظاہری طور پر ایسی کوئی بچی موجود نہیں تھی جو ریپ وکٹم ہو عوام کا کہنا ہے پھر اس گارڈ کو گرفتار کیوں کیا گیا ؟گارڈ کو پولیس کسٹڈی میں رکھا گیا تا کہ اس سے تمام انوسٹی گیشن کی جا سکے ،جب کہ اس کے بقول اور ثبوت سی سی ٹی سی فوٹیج وہ کہیں بھی مجرم ثابت نہ ہوا اب مجرم کہاں ہے؟ اور زیادتی کا شکار ہونے والی بچی کہاں ہے؟ اگر یہ دونوں ہی وجود نہیں رکھتے تو معاملہ گر بڑ ہے۔
موجودہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے سیاسی پراپیگنڈہ تیار کیا گیا جس میں ویمن ایجوکیشن کی تباہی ، موجودہ حکومت کی نااہلی اور پاکستان کا نام خراب کیا جاسکے اور طلبا میں دہشت گردانہ سوچ کو پروان چڑھایا جائے۔ جسے اللہ رکھے اسے کون چھکے ،موجودہ حکومت نے تحقیقات اور ثبوت کے ساتھ اپنی پراگرس ثابت کردی، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں یہ دہشت گردانہ سوچ ، توڑ پھوڑ اور انتشار پھیلانا کہیں سے بھی پاکستانی قوم کا شیوہ نہیں ہونا چاہیے ۔ہمیں اپنے ملک کی امیج کا خیال خود رکھنا چاہیے ،پاکستان ہم سے ہیں ہمیں اس ملک کو سنوارنا ہے بگاڑنا نہیں ہے۔
خدارا اپنے بچوں کی سوچ مضبوط کریں ،ایک سچے مسلمان اور پاکستانی ہونے کی ناطے ہمیں اسلام اور قرآن کو مدنظر رکھ کر سوچنا چاہیے ۔جیسا کہ قرآن میں واضح ہے
(ترجمہ )اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو، پھر اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔
آج ہم اپنی حرکتوں کی وجہ سے تباہی کی دہانے پر آ کھڑے ہیں خدارا اپنے بچوں کو ایجوکیٹ کریں ایک سچا مسلمان اور پاکستانی ہونے کی حیثیت سے اپنے عمل اور کردار سے اپنے ملک کو فائدہ پہنچائیں نہ کہ اپنی تعلیمی درس گاہوں کو اجاڑ دیں یہ علم زیور ہے جس نے پہن لیا وہ مالا مال ہوگیا جس نے اجاڑ دیا وہ خود د اجڑ گیا لہٰذا اپنے ملک و قوم کی حفاظت کے لیے کوشاں رہیں جھوٹی خبروں کی تصدیق کیے بغیر اپنے اور اپنے ملک کے کسی بھی تعلیمی ادارے کو بدنام مت کریں۔