مقاصد کا تعین ہی منزل کی نشاندہی کرتا ہے ورنہ انسان اپنی راہ سے بھٹک جاتا ہے اگر غلط راستہ پر سبک رفتاری سے بھی آگے بڑھا جائے تو منزل تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ رفتار بے شک کم ہو لیکن راستہ درست ہو تو بالآخر منزل مل ہی جاتی ہے۔ پاکستان جمہوری اساس پر قائم ہونے والی ریاست ہے لیکن اس کے باوجود ہم آج بھی جمہوریت کی معراج تک نہیں پہنچ سکے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی قوانین نافذ ہیں اور نہ ہی جمہوریت اور جمہوری روایات قائم ہو سکیں ہم نیم جمہوری، نیم خواندہ معاشرہ میں زندہ ہیں۔ ایسا معاشرہ جہاں رہبر و رہنما ہیں سیاسی جماعتیں ہیں منشور ہیں لیکن سیاسی شعور پر شخصیات کا سحر غالب ہے۔ اخلاقیات، جمہوری روایات ناپید ہیں۔ زندہ باد، مردہ باد، قائدِ انقلاب، حقیقی آذادی، عوامی ترجمانی، تاحیات قائد، ہینڈ سَم لیڈر، شخصیات کے پجاری، مفادات کے اسیر، لکیر کے فقیر، جانثار، حواری، درباری سب ہیں لیکن عوام اور عوامی کردار محدود ہے۔ رہبر ہیں منزل کا تعین نہیں، اگر منزل ہے تو رہبر نہیں، بس شور شرابہ ہے۔ جوش و جذبہ ہے، نفرت ہے تقسیم ہے عدم برداشت ہے اور خود نمائی کی خواہش ہے۔ اپنا اپنا سچ ہے، سچ اور سچائی ایسی کہ ذلت اور رسوائی کا بھی خوف نہیں۔ رہبری کی خواہش اور خود کو لازم سمجھنے کی سوچ نے فکری زوال کو ایسا فروغ دیا کہ جماعتوں سے لیکر ٹریڈ یونین تک، گلی محلہ کی سطح پر بھی رہنما ہی رہنما ہیں۔ کارکن ہیں تو نسل در نسل کارکن ہیں، رہبر ہیں تو پیدائشی رہبر ہیں۔ یہ ایسی رہبری ہے جس نے معاشرہ کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں موروثیت ہے یہاں اختلاف اور اختلافِ رائے کو ہی مخالفت سمجھا جاتا ہے۔قارئین کرام! سیاسی جماعتیں تو پاور پالیٹکس کے چکر میں کچھ بھی کر سکتی ہیں۔ مخالف نمائندوں کا ووٹ ضمیر کی آواز اور اپنے اراکین کی طرف سے جماعت کے مخالف ووٹ دینا ضمیر فروشی سمجھا جاتا ہے۔ نمائندے کبھی لوٹے گرادنے جاتے ہیں تو کبھی ضمیر کے اسیر یہاں سب کا دوہرا معیار ہے شخصیات بدلتی ہیں جگہ بدلتی ہے لیکن ایک ہی سوچ کارفرما ہے کہ مفاد اہم ہے۔ اصول، قاعدہ قانون سب کہنے کی حد تک درست ہے۔ سیاست تو راستہ بنانے کا نام ہے طاقت کا حصول ہے لیکن وطنِ عزیز میں تو ہر سطح پر سب ہی دوسروں کو روندتے ہوئے آگے آنا چاہتے ہیں ایک بار عہدہ ہاتھ آ جائے بس پھر تاحیات اور نسل در نسل اس پر تسلط کی خواہش کا اظہار ہر جگہ اور ہر سطح پر دیکھنے میں آتا ہے۔ انجمن تاجران ہو یا صحافتی تنظیم، ٹریڈ یونین ہو یا مسلک کی نمائندہ جماعت صدور ہیں تو تاحیات ہیں ان کے ہاں نتخابات کروانے کی روایت ہے ہی نہیں۔ جہاں انتخاب ہوتا ہے تو نام نہاد، بِلا مقابلہ کامیاب، جماعتوں میں نامزدگیاں ہیں۔ اس سوچ کی وجہ سے ہر شعبہ میں درجنوں گروپ، بے شمار تنظیمیں نظر آتی ہیں۔ سوچوں پر پہرا ہے رہنما ایسے کہ تنظیموں کو بانجھ کیئے ہوئے ہیں کہ نئی لیڈر شپ پیدا ہی نہیں ہوتی۔ روایتی سوچ، پرانے چہرے عہدوں پر براجمان ہیں۔ یہ نام نہاد نمائندے صدر کہلوانا اس حد تک پسند کرتے ہیں کہ انہیں اسمِ گرامی سے پکاریں تو متوجہ نہیں ہوتے صدر صاحب کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ انتخابات کی طرف کسی تنظیم کو آنے نہیں دیتے۔ سرکار اس صورتحال سے خوش رہتی ہے کیونکہ یہ تقسیم اور نام نہاد نمائندے کبھی اپنی کیمونٹی کے لیئے آواز نہیں اٹھائیں گے ڈی سی اور ڈی پی او کے ساتھ ضلع کی سطح پر تصاویر، حکومتِ وقت کے ساتھ تعلقات بس یہی ان عہدیداران کی معراج ہے۔ ہم ایک ایسے نیم خواندہ دولتمندوں کو بھی جانتے ہیں جو حیاتِ جاودانی میں کسی عہدہ پر فائز نہ ہو سکے تو وہ خود کو صوبائی رہنما لکھتے ہیں۔ کوئی یوتھ رہنما، کوئی تاجر رہنما، کوئی عوامی رہنما، کوئی صحافیوں کا رہنما بس رہنما ہی رہنما، رہنمائی ایسی کہ تنظیموں میں لیڈر پیدا ہی نہیں ہوتے۔ مقامی سطح کی ایک بہت ہی دلچسپ سادہ مثال عام فہم انداز میں پیش کرتے ہیں اوکاڑہ میں ایک صحافتی گروپ رجسٹرڈ ہوا۔تھوڑا عرصہ گزرا کہ گروپ میں گروپ بنا اور پھر ایک اور گروپ سوشل میڈیا پیجز پر اب دو مختلف افراد خود کو صدر لکھتے ہیں تنظیم کے نام کے ساتھ گروپ کا لاحقہ بھی نہیں۔ دیکھیں کیسی Honesty ہے کہ صدارت، عہدہ، نام ،نمائش نے سب کچھ ملیامیٹ کر دیا۔ صحافت کی منزل صرف یہ متعین ہے کہ ڈی سی اور ڈی پی او کو گلدستہ کون پیش کرتا ہے بس یہ صحافت ہے اور یہی صحافت کے رہنما بھی ہیں عوامی ترجمانی، خبر کا حصول اور صحافت کے تقاضے کچھ بھی تو نہیں جو انتظامیہ کے قریب ہے وہ صحافت سے دور ہے اور دور ہی رہے گا۔ صحافی اور ترجمان میں فاصلہ ہی اصل فرق ہے۔ دربار ، اشتہار اور اخبارِ جہاں اکھٹے ہوِئے معاشرہ میں زوال ہی زوال ہے۔ اسی طرح بازاروں میں تاجر تنظیموں کے صدر نہیں صدور ہیں جو ٹائیٹل تاجر برادری کا استعمال کرتے ہیں لیکن استعمال انتظامیہ کے ہاتھوں ہوتے ہیں۔ یہ منصب کی خواہش، عہدے کا جنون، آمرانہ سوچ، احمقانہ طرز عمل اور باتیں دانشمندانہ عجیب دوغلا پن ہے۔ صدارت کے چکر نے سب گَھن چکر بنا رکھا ہے۔ ایوب خان کا اقتدار فیصل آباد کا گھنٹہ گھر تھا آج گلی محلہ میں ایوب خان کی سوچ پر عمل کرنے والے گلے میں گھنٹی ڈالے پھرتے ہیں۔ پاکستان کا معاشرہ بظاہر آزاد معاشرہ ہے یہاں انداز فکر اور عمل پر پابندی نہیں لیکن طرزِ عمل سے ہمارا کیمونسٹ معاشرہ محسوس ہوتا ہے۔ آئیڈیلوجیکل ہم کیمونسٹ نہیں لیکن سوچ کے لحاظ سے اسی طرح جبر کا شکار ہیں۔ نئی سوچ اور قیادت کو پروان نہیں چڑھنے دیتے۔ بنگلہ دیش کی طرح تحریک یا انقلاب کی خواہش تو کرتے ہیں لیکن اس پر غور نہیں کرتے وہاں سوڈنٹ یونینز ہیں ٹریڈ یونینز ہیں ہمارے ہاں سب رہبر ہیں رہنما ہیں سدا بہار صدر ہیں۔ ایسے میں بہار نہیں آ سکتی۔ مقاصد ہی منزل کا تعین کرتے ہیں ہمارے مقاصد ہی ہمیں دائرہ میں گُھما رہے ہیں اور ہم گھوم بھی رہے ہیں اور جھوم بھی رہیں ہیں۔ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اپنی زندگی سے مادیت پسندی کو نکال کر مقصدیت پسندی کے تحت زندگی گزارنے کی کوشش کریں تاکہ درست سمت کا تعین ممکن ہوسکے۔کیونکہ یہ سچ ہے کہ درست راہنمائی درست منزل کا تعین کرتی ہے۔

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل