/چند سال قبل کی بات ہے کہ بندہ انور غازی آن لائن اکیڈمی کا طالب علم تھا. بلکہ اس اکیڈمی سے سند صحافت بھی حاصل کرچکا تھا. مافی الضمیر کو سپرد قرطاس کرنے کا فن ہم نے اسی اکیڈمی سے سیکھا. استادِ محترم جناب انور غازی صاحب کی نصیحت کے مطابق تحریری اشاعت کے لیے تعلقات عامہ بھی اہم کردار ادا کرتا ہے. اس لیے آگے بڑھنے کے لیے، تعلقات عامہ کے لیے اور اپنی ایک پہچان پیدا کرنے کے لیے پلیٹ فارم کی بے حد ضرورت ہوتی ہے. انہی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دن ہم نے اسلامک رائٹر موومنٹ اور اسی طرح کے ملتے جلتے نام کے ایک اور فورم پہ اپنی دلچسپی کا اظہار کیا. موخر الذکر فورم سے جس طرح کا جواب ملا میں یہاں بتا نے سے قاصر ہوں. انتہائی دکھ بھی ہوا کہ. خیر ٹھیک 10 منٹ بعد مجھے حفیظ چوہدری صاحب کا جواب موصول ہوا. دل کو ایک دھچکا بھی تھا کہ یہاں سے بھی ایڈمن کی جانب سے سرد مہری نظر آئی تو کیا کیا جائے گا؟ مگر خدا چوہدری صاحب کی ہر جائز خواہش پوری فرمائے، انہیں صحت و تندرستی عطا فرمائے. اور ان کے اس فورم کی شاخیں دنیا کے ہر کونے تک پہنچیں. وہ اپنے رویہ سے یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ جیسے بڑا بھائی چھوٹے بھائی سے مخاطب ہے. تعارفی اور رسمی گفتگو کے بعد فرمانے لگے آپ کی ناقابل تحاریر کو قابل اور قابل تحاریر کو قابلِ اشاعت بنایا جائے گا اور اگر کوئی مزید اشکالات آپ کے ذہن میں جنم لے رہے ہیں تو آپ ہمارے ایڈمن صاحبان سے بات کر کے دور کر سکتے ہیں. اگلے روز میں نے ایڈمن پینل سے رابطہ کیا تو وہاں سے بھی وہی خوش اخلاقی نظر آئی جو حفیظ چوہدری صاحب سے بات چیت کے دوران نظر آئی تھی . اسی دوران طیب طاہر صاحب سے تو وقت کی عدم یکسانیت کی بنا پہ تفصیلاً گفتگو نہ ہو سکی. مگر اسامہ قاسم صاحب سے تو باقاعدہ طویل اور تفصیلاً گفتگو ہوئی. میں دماغی طور پہ موٹاپے کا شکار ہوں. بار بار سمجھانے سے بھی میرے اشکالات دور نہیں ہوتے. مگر اسامہ قاسم صاحب نے میری ہر بات کا جواب احسن طریقے سے دیا. مجھے شرح صدر ہونے تک میں اشکال کرتا رہا اور وہ اشکال مار سپرے کرتے رہے. خدا ان کا بھلا کرے مجھے انہوں نے بطور سینئر رائٹر اس گروپ میں مجھے جگہ دی۔یہاں میں ایک بات مزید عرض کرتا چلوں کہ اس موومنٹ میں مجھے ایک ادنی سے ادنی یعنی مجھ جیسے لکھاری کی بھی قیمت نظر آئی جو دوسرے گروپ میں نظر ہی نہیں آئی. یہاں مجھے استاد محترم انور غازی صاحب کی وہ بات یاد آئی کہ میرا ہر شاگرد قیمتی ہیرا ہے. جسے اچھی طرح مسل کے بھی اس کی قدر وقیمت کم نہیں کی جاسکتی. اس موومنٹ کی روز افزوں ترقی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کے ذمہ داران اخلاق کے اعلی درجہ پہ فائز ہیں.اس گروپ میں شرکت کی دوسری وجہ اس کی مذہبی وابستگی ہے. علماء کرام کی سر پرستی میں چلنے والا یہ گروپ انشاءاللہ ضرور انٹرنیشنل فورم پہ اپنا مقام حاصل کر لے گا . باالخصوص علامہ زاہد الراشدی حفظہ اللہ کی متوازن اور اعتدال پسند شخصیت کے زیر سایہ تو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا. جن کا قلم جب چلتا ہے تو تننقید برائے تنقید کی بجائے تنقید برائے اصلاح کی جانب گامزن ہوتا ہے. مخالف بھی ان کی بات کو تسلیم کیے بنا نہیں رہتا. ان کے قلم سے مخالف کو پیام محبت ہی میسر آتا ہے. نہیں تو نفرت پھیلانے والے لکھاریوں سے دنیا خالی نہیں ہے. چاہے مذہب کے نام پہ یا سیاست کے نام پہ پھیلائی جائے. نفرت پھیلانی بہت ہی آسان اور پیام محبت دینا اتنا ہی مشکل کام ہے. قحط الرجال کے اس دور میں علامہ صاحب کسی نعمت خداوندی سے کم نہیں ہیں. خدا ان کا سایہ تادیر قائم رکھے آمین ثم آمین

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل