85

اسلامی ریاست خصوصاً پاکستان میں بغاوتوں کا تسلسل اور ان کا شرعی حکم/تحریر/ واجد علی تونسوی

تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی ممالک کو روز اول سے ہی بغاوتوں کا ایک چیلنج درپیش ہے، چنانچہ ریاست مدینہ میں بھی آپﷺ کی زندگی کے آخری ایام میں قبیلہ بنو حنیفہ کے سردار مسیلمہ بن حبیب نے نبوت کا دعوی کرکے بغاوت کی ابتداء کی۔ آپﷺ اس بغاوت کو کچلنے سے قبل ہی اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ آپ ﷺکی وفات کے بعد اسلامی ریاست کے خلاف بغاوتو ں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دور صدیقی میں مدینہ منورہ کے گردونواح کی صورت میں اٹھا جس کی سرکوبی کےلیےحضرت ابوبکر صدیقؓ انتہائی استقامت کے ساتھ بغاوتوں کے کچلنے کےلیے اقدامات کرتے رہے۔خلیفہ ثانی حضرت عمر ؓ کا دور حکومت فتوحات کا دورکہلاتا ہےجس میں اسلامی ریاست کو خوب وسعت ملی۔ حالات پرامن رہےجس کی وجہ سےباغیوں کے لیے سر اٹھانا مشکل ہوگیا لیکن یہ لاوا اندر ہی اندر سلگتا رہا اور خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں ایک بار پھر بلوائیوں نے پوری قوت کے ساتھ بغاوت کرکے آپ ؓ کو شہید کر دیا اور حضرت علیؓ کو بیعت لینے پر مجبور کیا لیکن واقعہ تحکیم کی وجہ سے ناراض ہوکر الگ ہو گئے اور حضرت علیؓ کے خلاف بغاوت شروع کردی اور خوارج کے نام سے مشہور ہوئے۔ حضرت علیؓ زندگی کے آخری ایام تک ان کے خلاف نبرد آزما رہے ۔اس کے بعد کی تاریخ میں تو بغاوتوں کا ایک تسلسل ہے ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو آئے روز پاکستان میں بھی بغاوتوں کا بازار گرم ہے۔2000 کے بعد سے لے کر اب تک پاکستان میں 150 سے زائد تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے جو کہ کسی نہ کسی طرح ملک میں امن و امان خراب کرنے اور ریاست کو نقصان پہنچانے میں مصروف عمل تھیں۔ بڑی بڑی تنظیموں کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ دسمبر 2007 میں ملک بھر میں فعال 40 کے لگ بھگ چھوٹی، بڑی شدت پسند تنظیموں کے ایک اجلاس میں تحریکِ طالبان پاکستان کے قیام کا اعلان کیا گیا جس کا سربراہ بیت اللہ محسود کو بنایا گیا۔ٹی ٹی پی پر پابندی اگست 2008 میں عائد کی گئی۔مارچ 2013 میں ٹی ٹی پی کے دھڑوں پربھی پاپندی کا اعلان کیا گیا جن میں تحریکِ طالبان سوات، تحریکِ طالبان مہمند، طارق گیدڑ گروپ اور عبداللہ عزام بریگیڈ، 313 بریگیڈ اور تحریکِ طالبان باجوڑ شامل تھے۔نومبر 2016 میں جماعت الاحرار، جولائی 2019 میں حزب الاحرار اور اگست 2020 میں غازی فورس نامی ٹی ٹی پی کے دھڑے پابندی کی زد میں آئے۔بلوچستان کی سب سے بڑی علیحدگی پسند اور شدت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر اپریل 2006 میں پابندی عائد کی گئی تھی۔اس کے بعد بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پانچ دیگر عسکری تنظیموں پر آٹھ اپریل 2010 کو پابندی عائد کی گئی جن میں بلوچستان ری پبلکن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، لشکرِ بلوچستان، بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ اور بلوچستان مسلح دفاع تنظیم شامل تھی۔اگست 2012 اور مارچ 2013 میں بلوچستان بنیاد پرست آرمی، بلوچستان واجا لبریشن، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور بلوچستان نیشنل لبریشن آرمی جیسی بلوچ مسلح تنظیموں پر پاپندی عائد کی گئی۔بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں فعال طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) بھی بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو افرادی قوت فراہم کرنے کے مبینہ الزامات کے سبب کالعدم قرار دی گئی۔جولائی 2019 میں بلوچستان کی چار علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی اجوئی سنگر(براس) کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ان عسکری تنظیموں پر نہ صرف پابندیاں لگائی جاتی رہیں بلکہ پاک فوج نے ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی جنگیں بھی لڑیں ،جس کے لیے ہزاروں جوانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر اور اپنے بچوں کو یتیم کروا کر اس ملک کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچایا،کیونکہ ہماری فوج جانتی ہے کہ ان کے پیچھے کا ایجنڈا کیا ہے اور تمام تر تنظیمیں کن کی تعاون سے وجود میں آئی ہیں اور جتنی بھی تنظیمیں اسلام کا نام لے کر پاکستان کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو افواج پاکستان اور عوام بخوبی ان کو جانتی ہے کہ ان کالعدم تنظیموں کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کو شدید جرم قرار دیا اور باغی کی سزا موت قرار دی ہے۔یہ بات شرعی اعتبار سے واضح ہے کہ مسلمان حکومت کے خلاف، خواہ وہ فاسق ہی کیوں نہ ہو، قتال اور مسلح جد و جہد جائز نہیں ہے جب تک وہ صراحتاً کفر کا اعلان نہ کرے یا ان حکمرانوں کے کافر ہوجانے پر صریح اور قطعی طور پر اجماع امت نہ ہو جائے یا وہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہ کریں۔ مزید یہ کہ وہ حکماً اقامت صلاۃ سے روکیں اور معصیت پر اکسائیں۔ اسے حدیث مبارکہ میں کفرِبواح کہا گیا ہے لیکن پاکستان میں آج تک جتنے بھی فاسق حکمران آئے ہیں ،ان میں سے کسی نے بھی نماز پڑھنے ،روزے رکھنے اور قربانیاں کرنے سے نہیں روکا یعنی کہ فاسق حکمران تو تھے لیکن کفر بواح کا اعلان نہیں کیا۔جب کفر بواح کسی بھی حکومت میں ثابت نہیں ہے تو یہ کالعدم تنظیمیں اسلام کا نام لے کر کہاں سے آگئیں اور کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں کہ وہ اسلامی ملک کے لیے جہاد کر رہے ہیں؟ جبکہ شریعت اسلامی ملک کے اندر اپنی ریاستی فوج کے خلاف مسلح ہو کر بغاوت کرنے سے سخت منع کرتی ہے ۔اب قوم بھی سمجھ چکی ہے ،ان تمام کالعدم تنظیموں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے چاہے وہ اسلام کا نام لے کر افواج پاکستان کے خلاف کھڑی ہو جائیں یا پھر اپنی قوم اور قبائل کے نام پر مسلح ہو کر اسلام کے نام پر نئی ریاست کے لیے ناکام جدو جہد کرنے کی کوشش کریں ۔یہ تنظیمیں روز بروز ریاست کے خلاف کھڑی تو ہوتی ہیں لیکن ان کو اتنا نہیں معلوم کہ جو فوج خود سے دس گنا بڑی بھارت کی فوج کو شکست دے سکتی ہے تو یہ چھوٹی چھوٹی تنظیمیں اس فوج کا مقابلہ کیسے کریں گی ؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں