94

اصلاح سے قریب اور فساد سے دور/تحریر/سلمان احمد

قریشیْ اسلام میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح سے قریب اور فساد سے دور ہوجائیں۔ اہل مغرب فن حکومت کو سیاست کہتے ہیں۔ امور مملکت کا نظم ونسق برقرار رکھنے والوں کوسیاستدان کہا جاتا ہے۔قیادت ایک فرد یا افراد کے ایک گروہ کی وہ اہلیت ہے جو انہیں عوام کومتاثر کرنے اور انکے تجویز کردہ راستے کو درست سمحھنے پر آمادہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔سیاسی قیادت کو عمومی طور پر ایک پسندیدہ خصوصیت سمجھا جاتا ہے۔یہ خاصیت سب میں موجود نہیں ہوتی اور جن میں ہوتی ہے وہ مروجہ سیاسی نظام میں آگے نہیں آسکتے۔سیاسی جماعتوں سے منسلک وہ کارکن جو متحرک رہتے ہیں کارکن کے طور پر ہی سیاسی نظام کا حصہ رہتے ہیں۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں یہ قدر بھی مشترک ہے کہ قیادت نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ سیاست میں خاندانوں کا کردار اور عمل دخل ایک مضبوط حوالہ ہے۔ ہمارا سیاسی نظام ہی ایسا ہے یہاں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں بن سکتے۔روایتی سیاست دان خوب جانتے ہیں کہ سیاسی طاقت کاسرچشمہ کہاں سے پھوٹتا ہے۔اقتدار میں شراکت داری اصل مکاری ہے اس کے لیے ہی سب تماشے لگائے جاتے ہیں۔پاکستان کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو ہی وہ شخصیت تھی جس نے نعرہ لگایا تھا کہ طاقت کا سرچشمہ عام ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کا کہنا تھا عام آدمی کو سیاست میں لانا میرا سب سے بڑا جرم ہے۔اس سے قبل جماعت اسلامی میں کارکنان کی حیثت کو تسلیم کرنے کی روایت قائم تھی۔جماعت اسلامی واحد سیاسی جماعت یے جس میں عہدیدار اہلیت اور خدمات کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں۔جماعت اسلامی کے اس پارٹی نظام پر سیاسی و سماجی حلقے تعریف کرتے ہیں۔شفاف طریقے سے اراکین جماعت اسلامی بغیر کسی دباؤ یا لالچ کے ہر بار امیر کا انتخاب کرتے ہیں۔ جس کی نگرانی بھی بااختیار انتخابی کمیشن کرتا ہے۔ جماعت اسلامی کا رکن بننے کی شرائط بھی سخت ہوتی ہیں اسی لیے جو جماعت سے کمٹمنٹ رکھے وہی ممبر بنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت کا امیر شروع سے اب تک مسلسل کوئی ایک شخص نہیں بلکہ یہ بدلتے رہتے ہیں یہی اصل جمہوری طریقہ ہوتا ہے۔کسی بھی رہنما کو نہ خود امیر بننے کی خواہش کا اظہار کرنے کی اجازت ہے نہ ہی وہ اپنی تشہیر کر سکتا ہے۔ضلعی اور یونین کونسل کی سطح پر عہدیداروں کا انتخاب ہوتا ہے۔ایسا شفاف عمل کسی سیاسی جماعت میں موجود نہیں ہے۔پیرا شوٹرز کی اس جماعت میں کوئی جگہ نہیں۔مجلس شوری کے ذریعے امیر بنایا جاتا تھا۔ہر کسی کا انتخاب میں حصہ لینا تو دور کی بات شرائط پوری کیے بغیر کوئی رکن بھی نہیں بن سکتا۔ ان کے مقابلہ میں دیگر مذہبی جماعتوں میں نئے لوگوں کو پارٹی عہدے دے دیے جاتے ہیں۔ اہلیت، فعالیت اور نظریاتی وابستگی کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔پی ٹی آئی کے موجودہ چیرمین بیرسڑ گوہر چند سال قبل پی پی پی کا حصہ تھے۔پی ٹی آئی میں شامل ہوئے اور آج چیرمین بنادیے گئے۔ اسی طرح پی پی پی ساوتھ پنجاب کے موجود صدر مخدوم احمد محمود پہلے مسلم لیگ فنگشنل کے صوبائی صدر تھے پی پی پی میں شامل ہوئے تو گورنر بنائے گے اور تاحال پی پی پی کے صوبائی صدرہیں۔جماعت اسلامی اپنے نظام پر مضبوطی سے قائم ہے لیکن جمہوری جماعت کوئی بھی ہو جمہوری نظام پارٹی میں بھی رائج نہیں کر سکی۔لسانی جماعت ایم کیو ایم نے بھی گلی محلہ سے کارکنان کو اسمبلیوں تک پہنچایا لیکن یہ جماعت بانی ایم کیو ایم کی مکمل گرفت میں تھی۔فرد واحد پارٹی اور نظریہ سے بہت بلند تھا۔پاکستان میں قیادتیں اگانے اور سیاسی تماشے لگانے تک پھیلے اس پورے کھیل میں ایک المیہ یہ بھی ہوا کہ سیاسی کارکن مجاور ، مرید اور روبوٹ کا روپ دھار گئے۔ ان کا کام بس نعرے اور کرسیاں لگانا رہ گیا، ان کا بلند ترین مقصد لیڈر اور اس کے جملہ اہلِ خانہ کی سالگرہیں اور برسیاں منانا قرار پایا اور جلسوں اور عہدوں میں بٹتی بریانی پر جھپٹنا ان کی سیاسی تربیت کا مظاہرہ بن کر سامنے آیا۔پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت تمام حدود ہی عبور کرگئی بانی چیرمین کو ریڈ لائن کرار دےدیا گیا۔شخصیت پرستی اور تقلید کی اس لہر نے سیاست میں تشدد اور عدم برداشت کا نیا کلچر متعارف کروادیا۔دوسری جماعتوں پر تنقید سے کہیں بہتر ہوتا معاشرہ میں شعور کو عام کرنے پر محنت کی جاتی کیونکہ جب معاشرہ باشعور ہوجاتا ہے تو پھر سیاستدان بھی اسکے خلاف نہیں جاسکتے۔سماجی شعور سیاست پر اثر انداز ہوتا ہے۔سیاستدانوں پر تنقید کرنے سے بہت بہتر ہے عوام کو باشعور بنایا جائےیہ سماجی کام ہے۔ عوام جب تک اقتدار کی حقیقت کو نہیں جانیں گے ہم سیاست میں مسیحا کو تلاش کرتے رہیں گے۔شعورکا در کھلے گا تو اجارہ داریاں اور وراثتی سیاست در بند ہوگا، تبدیلی نعرے سے نہیں سوچ کو بدلنے سے آئیں گئی۔ایسی سیاست کو فروغ دیں جواصلاح سے قریب اور فساد سے دورہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں