135

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر !/از قلم/ عصمت اسامہ

آج کل تعلیمی اداروں میں کئی ایونٹس اور تہوار منانے کا رواج عام ہے۔ قطع نظر اس سے کہ ان کے پس منظر کا علم ہو کہ کوئی تہوار کیوں منایا جاتا ہے ، اس کی تاریخ کیا ہے ؟ کالجز اور یونیورسٹیوں میں خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے اور سب بھیڑیں اندھا دھند ایک دوسرے کے پیچھے چل پڑتی ہیں۔ بچوں اور نوجوانوں سے بڑھ کر یہ ذمہ داری والدین ،اساتذہ اور اداروں کے مالکان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو ان تہواروں کی سیلیبریشن سے کیا سکھا رہے ہیں،اس پر غور فرمائیں ۔ گزشتہ دنوں کراچی کی انڈس یونیورسٹی میں ” ہالووین پارٹی ” منائی گئی ،اس میں شیطان کی پرستش اور اسے خوش کرنے والے سارے امور یعنی شراب نوشی ،لڑکے لڑکیوں کا اکٹھے ناچ گانا ،بے ہودہ ملبوسات کی بھرمار کے ساتھ اسکرین پر شیطانی تصاویر ،دجالی تکون ،ابلیس ملعون کا مکروہ چہرہ اور ” شیطان تمہاری ترقی سے خوش ہے ” جیسے کافرانہ اقوال دکھاۓ گئے یعنی خدا تعالیٰ کی ناراضی اور عذاب الٰہی کو دعوت دی گئی۔ حیرت کی بات ہے کہ اس تقریب کی سرکاری اداروں سے باقاعدہ اجازت لی گئی تھی۔ مملکت خدا داد پاکستان میں ایسے تہوار مناۓ جانا لمحہء فکریہ ہے اور نسلوں کی تباہی ہے ۔ کیا ہم اپنے نوجوانوں کو کفار کے حوالے کر رہے ہیں ؟ اس واقعہ کی تحقیق کی جانی چاہئیے اور ذمہ داران کے خلاف تادیبی کارروائی ہونی چاہئیے۔” ہالووین” ایک امریکی تہوار ہے جو کئی سو سال پرانی تہذیب میں اکتوبر کے اختتام پر ،فصلوں کی کٹائی اور سخت سردی کی آمد پر منایا جاتا تھا ۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اس وقت بدروحیں آسمان سے نیچے اترتی ہیں اور اگر انسان انھیں کھانے پینے کا سامان نہ دیں تو وہ انھیں نقصان پہنچاتی ہیں۔ چنانچہ بچے اور نوجوان خود بھی بدروحوں ،بھوتوں اور چڑیلوں کا روپ دھارتے اور آگ جلاتے یعنی Bonfire کرکے شیطان کی پرستش کرتے اور بدروحوں کو رشوت دیتے تھے تاکہ وہ انھیں نقصان نہ پہنچائیں۔ اس کافرانہ تہوار کو اب یورپ میں سرمایہ دارانہ مقاصد کے تحت منایا جاتا ہے اور treat or trick کے نعرے کے ساتھ لوگ دوکان داروں کو کہتے ہیں کہ وہ لازماً انھیں کچھ کھانے کا سامان دیں یا پھر اپنے خلاف کسی چال کے لئے تیار ہوجائیں۔ بہرحال اس شیطانی تہوار کا مسلمانوں سے کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہئیے کیوں کہ یہ ہمارے عقیدہء توحید کے بر خلاف کفر پر مشتمل ہے ۔اس تہوار کے علاوہ گزشتہ چند سالوں کے دوران کئی تعلیمی اداروں میں ہندووانہ تہوار ” ہولی ” کو منانے کا رواج بھی عام کیا جارہا ہے اور نظریہء پاکستان پر ضربِ کاری لگائی جارہی ہے۔ مقتدر طبقہ اگر خواب غفلت کی نیند سورہا ہے یا پھر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوۓ ہے تو یہ زمہ داری ہر مسلمان شہری پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھے اور کم از کم سوشل میڈیا پر آواز بلند کرے تاکہ دوسروں کی آنکھیں بھی کھل سکیں۔ اصل میں ہر قوم کی پہچان ،اس کی مخصوص تہذیب ،عقیدہ و اظہار ،زبان و ادب،لباس ،تہوار اور رہن سہن سے ہوتی ہے ۔جب تک کوئی قوم اپنی مخصوص شناخت ( identity) کو برقرار رکھتی ہے ،اس کا وجود قائم رہتا ہے اور جب وہ دوسری قوموں کی نقالی کرنے لگے تو اس کا وجود مسخ ہونے لگتا ہے اور یہی اس قوم کے زوال کی نشانی ہوتی ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور بس یہی ہماری شناخت ہے کہ ہم اس فانی دنیا مین بحیثیت مسلمان زندگی گذاریں اور بحیثیت مسلمان ہی اس دنیا سے رخصت ہوں ،اس کے علاوہ ہماری کوئی شناخت نہیں ہے۔ ہمارے پیارے آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل ہی تنبیہہ فرمادی تھی کہ ” جو شخص ،دوسری قوموں کی مشابہت اختیار کرے گا ،وہ انھی میں سے اٹھایا جاۓ گا”( مسند احمد).ایک مقام پر ارشاد فرمایا: (نماز کے وقت سنکھ یا ناقوس نہیں بجے گا) ” یہ یہودیوں اور عیسائیوں کا طریقہ ہے ،مسلم تہذیب کی شناخت اذان ہے “( صحیح بخاری).اپنی اسلامی تہذیب کے بارے میں جاننا ،اسلام اور کفر میں فرق کرنا ،عقیدہء توحید کو اپنانا اور ابلیس کی پرستش سے بچنا ہر ذی شعور مسلمان کی زمہ داری ہے۔بقول علامہ اقبال:~اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی !#

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں