114

اور جب شہزادہ ! چھ سو درہم میں فروخت کردیا /تحریر/اعجاز خان میو

ا! اصحمہ کا باپ ابجر بادشاہ نہایت دانش مند ،صاحب حکمت،عادل اور بہادر انسان تھا۔ بدطینت سرداران قوم اور بدعنوان مذہبی رہنما اس صاحب خیر بادشاہ کے خلاف سازش کرنے لگے۔ اس بادشاہ کا ایک ہی بیٹا تھا جبکہ اس کے دوسرے بھائی کے بارہ بیٹے تھے۔ بد عنوان سرداروں نے سازش کے ذریعے کمزو رحکومت کے نام پر رعایا کو اپنا ہم نوا بنانے کے لیے ایک حربہ اختیار کیا کہ عوام کو بتایا جائے کہ اگر بادشاہ کو کچھ ہوگیا اور اس کا نوعمر اکلوتا بیٹا حکمران بنے گا؟ بہتر یہ ہے کہ اس بادشاہ کی بجائےاس کے بھائی کو تاج پہنا دیا جائے۔جس کے بارہ بیٹے ہیںاور وہ اس کی قوت کا راز ہیں اور وہ اس کے بعد حکومت کی مضبوطی کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ اس سازش کے تحت انہوں نے اس عادل ومنصف اور نیک سیرت وپاکیزہ اخلاق حکمران کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ سازشی سرداران قوم کے برے عزائم کی راہ میں وہ نیک حکمران ایک مضبوط رکاوٹ تھا۔ حبشہ کی تاریخ میں ایک دیانت دار حکمران کے قتل کا یہ اقدام ایک انتہائی دردناک سانحہ تھا مگر اس سے آگے مزید سانحات بھی اس ملک کے نصیب میں تھے البتہ اللہ تعالیٰ جو تنہا کائنات کا خالق ومالک ہے۔ شر میں سے خیر نکالنے پر پوری طرح قادر ہے۔ بعد میں رونما ہونے والے واقعات سے یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہوگئی کہ ربّ کائنات ظالموں کو ڈھیل ضرور دیتا ہےمگر جب چاہے ان کی رسی کھینچ لیتا ہے ۔اسی طرح وہ اہل حق پر آزمائشیں ڈالتا ہے مگر جب وہ ان آزمائشوں میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی نصرت ان کے شامل حال ہوتی ہے۔ اس کے فرشتے ان اللہ والوں کے دلوں کو سکینت دیتے ہیں اور نصرت خداوندی ان کے دشمنوں کی تمام چالوں کو انھی پر الٹ دیتی ہے۔ ان صاحب کردار بندوں کے مقدر میں کامیابی اور فتح لکھ دی جاتی ہے اور مخالفین کے حصے میں شکست اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ اپنےوالد کے قتل کے وقت یتیم اصحمہ کی عمر بہت کم تھی اور وہ اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس معصوم بچے کے دل پر قیامت گزر گئی مگر وہ بے چارہ کیا کرسکتا تھا۔ بہرحال اس کے چچا نے تخت نشین ہونے کے بعد اسے بھی اپنے محل میں اپنے ساتھ رکھ لیا۔اس طرح اصحمہ نے اپنے چچا کے ہاں پرورش پائی ۔ وہ بہت عقلمند اور ہوشیار انسان تھا ۔ اس نے اپنے چچا کے معاملات پر غلبہ حاصل کر لیا اور ہر جگہ اس کے ساتھ رہنے لگا ۔ سرداران قوم اس نوعمر یتیم لڑکے کو بھی حسد کی نظر سے دیکھتے تھے۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر کبھی یہ لڑکا بڑا ہو کر بادشاہ بن گیا تو اپنے باپ کے قاتلوں سے ضرور بدلہ لے گا۔ جب انہوں نے بادشاہ سے یہ بات کی تو اس نے کہا: ” تمہاری بربادی ہو کل میں نے اس کے باپ کو (ناحق) قتل کیاآج اسے قتل کردوں۔ ‘‘ درباریوں نے کہا: ” چلیے ٹھیک ہے اسے قتل نہ کریںلیکن جلاوطن کردیں۔ ‘‘ اس بات پر ان بدبختوں نے اتنا اصرار کیا کہ بالآخر بادشاہ نے بادل ناخواستہ اس تجویز سے اتفاق کرلیا چنانچہ شہزادہ چھ سو درہم میں فروخت کردیا گیا۔ اس مظلوم شہزادے کو بازار سے خریدنے والا تاجر اس کو اپنے ساتھ کشتی میں سوار کرکے اپنے وطن لے گیا۔ جب شام ہوئی تو آسمان پر ایسے سیاہ اور خوف ناک بادل چھائےجن کی چمک اور گرج نے زمین اور پہاڑ ہرایک چیز کو ہلاڈالا۔ بادشاہ گھبرا کر محل سے باہر نکلا تو آسمانی بجلی نے اسے مارڈالا۔ ہرجانب گھپ اندھیرا چھا گیا اور ساری قوم لرز اٹھی کہ اب کیا ہوگا؟سازش کرنے والے شریر سرداران وپادریان جن کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ وہ کل بیس تھےسبھی کے سبھی اندھے ہوگئے اور پھر ذلت کی موت مرگئے۔ چند دنوں تک پورے ملک میں مصیبت اور افراتفری کی یہی کیفیت رہی۔ ہر شخص اس صورتِ حال سے پریشان تھا جو بدکردار موت کے گھاٹ اترگئے وہ تو نشان عبرت بن گئے مگر اب حبشہ کے دیگر ارباب حل وعقد اور سردار جو بچ گئے سب کے سب گھبراہٹ میں سرگرداں تھے۔ بادشاہ مرچکا تھا اور تخت خالی تھا۔ جب اس بادشاہ کے بیٹوں کا جائزہ لیا گیا تو وہ اتنے عیاش تھے کہ ان میں سے کوئی بھی حکومت کی قابلیت اپنے اندر نہیں رکھتا تھا۔ سب نشے میں دھت تھے۔ اب پورے ملک میں سراسیمگی پھیل گئی۔ سمجھ دار لوگوں نے سرداران قوم کو لعن طعن کیا اور کہا کہ یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے۔ پوری قوم یک زبان ہوگئی کہ اب اس عذاب الٰہی سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اس شہزادے کو تلاش کروجسے تم نے ظلم وستم سے دیس نکالا دیا ہے۔ ( سیرت ابن ہشام ) امام حلبی ؒ لکھتے ہیں: ” یعنی یہ لوگ اس شہزادے اور جس شخص کے ہاتھ اس کو بیچا گیا تھا کی تلاش میں نکلےیہاں تک کہ اسے پالیا پھر اس سے شہزادے کو زبردستی واپس لے لیا اور اپنے ملک میں لے آئے۔ اس کے سرپر تاج رکھا اور اسے تخت نشین کیا ۔یوں اس عظیم نوجوان کی حکومت قائم ہوئی۔‘‘ (السیرۃ الحلبی ) یہ واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ تاجر نہیں جانتا تھا کہ یہ نوجوان کون ہے؟ جب اس سے زبردستی اس کا غلام چھین لیا گیا تو وہ حبشہ پہنچا اور بادشاہ کے دربار میں آکر شکایت کی۔ اس نے کہا کہ یا تو اس کا غلام اسے دیا جائے یا اس سے وصول کی گئی قیمت لوٹائی جائے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ جو غلام اس نے خریدا تھا وہ اب اس ملک میں تاج وتخت کا مالک ہے۔ اس پر وہ گھبرا گیامگر بادشاہ نے فیصلہ دیا کہ مدعی کا دعویٰ ٹھیک ہے ۔اسے وصول کی گئی قیمت واپس دی جائے یا پھر اس کا غلام اس کے سپرد کیا جائے۔ اس تاجر کو قیمت ادا کی گئی۔ یہ اصحمہ بن ابجر کا پہلا فیصلہ تھا۔ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ کس قدر عالی اخلاق کا مالک‘ عادل اور منصف مزاج تھا۔ تاریخ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جس تاجر نے شہزادہ اصحمہ کو خریدا تھا وہ عرب تھا اور اس کا تعلق قبیلہ بنی ضمرہ سے تھا۔ وہ شہزادے کو لے کر اپنے علاقے میں گیا جو بدر کے قرب و جوار میں واقع تھا اور وہاں شہزادے کو بکریاں چرانے پر لگادیا۔ جب حبشہ میں بجلیاں کڑکنے کا واقعہ رونما ہوئے کچھ عرصہ بیت چکا تھا۔ اس وقت شہزادہ جوانی کی عمر کو پہنچ گیا تھا۔ جب اس کی تلاش میں لوگ نکلے تو اسے جزیرۂ نمائے عرب میں جاپایا۔ اسے وہاں سے لے کر حبشہ آگئے۔ نور الدین الحلبی ؒ بیان کرتے ہیں : ” جب بدر میں آنحضور ﷺکو فتح ہوئی اور یہ خبر نجاشی تک پہنچی(وہ اس وقت تک مسلمان ہوچکے تھے اگرچہ ابھی اس کا اعلان نہیں کیا تھا) تو انہوں نے تخت سے اتر کر زمین پر سجدہ کیا۔ لوگوں نے پوچھا بادشاہ سلامت آپ نے یہ کیا کیا؟ جواب دیا: انجیل میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب اللہ بندے کو کوئی نعمت عطا فرمائے تو اسے اس کی زمین پر سجدہ کرنا چاہیے۔‘‘ سجدہ کرنے کے بعد نجاشی نے فرمایا: ” آج اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی خوشی اور عظیم نعمت سے ہمیں نوازا ہے اور وہ یہ ہے کہ محمدؐ اور ان کے دشمن آپس میں بدر کے میدان میں ٹکرائے ہیں۔ اس جنگ میں اللہ نے اپنے نبی کو شاندار کامیابی سے نوازا ہے۔ میں میدان بدر کو اس کی جھاڑیوں سمیت اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ (السیرۃ الحلبیۃ ) در اصل حبشہ کے ہر بادشاہ کا لقب نجاشی ہوتا تھا۔جو نجاشی آنحضورﷺ کے دور میں حبشہ پر حکمران تھا اس کانام اصحمہ(اصمحہ ) بن ابجر تھا۔ یہ نام تاریخ میں اصحم بن ابحر بھی آتا ہے مگر زیادہ صحیح اصحمہ بن ابجر ہے۔ اس بادشاہ کی شخصیت تاریخ انسانی کی نادر اور یادگار شخصیات میں سے ہے۔نجاشی شاہانہ اوصاف، عدل وانصاف، رحم وکرم اور رعایا پروری کے علاوہ عام انسانی اخلاق واوصاف سے بھی متصف تھے۔ اپنے ملک میں مظلوم وستم رسیدہ مسلمانوں کے ہاتھ انھوں نے جوحسن سلوک کیا اس احسان سے امت محمدیہ ہمیشہ گراں بار رہے گی۔ جب قریش کے ظلم وستم کم نا ہوئے تو حضور اکرم ﷺنے مسلمانوں کوحبشہ ہجرت کرجانے کا حکم دیا۔چنانچہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکہ سے حبشہ ہجرت کرگئی۔ نجاشی نے مسلمانوں کے ساتھ بڑا اچھا سلوک کیا۔قریش کو اس احسان وسلوک کا حال معلوم ہوا توبڑا پیچ وتاب کھایا ۔ایک وفد جس میں عمروبن العاص اور عبد اللہ بن ربیعہ شامل تھے حبشہ پہنچا ۔وہ پہلے تو تمام پادریوں سے ملے اور تحفے وتحائف پیش کیے اور مقصد کی تکمیل کے لیے ان کوہموار کر لیا پھر نجاشی کے دربار میں بازیابی حاصل کی اور نذرانہ پیش کیا۔ نجاشی نے آمد کی وجہ دریافت کیا تو انھوں نے اپنا مطالبہ ظاہر کیا۔نجاشی نے پادریوں سے دریافت کیا ۔ انھوں نے بھی یک زبان ہوکر ان کے مطالبہ کی تائید کی لیکن شاہ نجاشی نے کہا: ” میں ان لوگوں سے خود بالمُشافہ گفتگو کروں گا اگروہ لوگ جیسا کہ تم کہتے ہو مجرم ثابت ہوئے توان کوواپس کردوں گا ورنہ جومیری پناہ میں آگیا ہے اس پرظلم روا نہیں رکھا جا سکتا۔‘‘ مسلمان دربار میں بلائے گئے تواصمحہ نے ان سے پوچھا : ” تم نے کونسا دین اختیار کیا ہے، جو نہ نصرانیت ہے نہ بت پرستی اور نہ کسی دوسری قوم کا دین ہے۔‘‘ مسلمانوں کی طرف سے حضرت جعفر ؄نے وکالت کی اوربرسر دربار ایک بہت ہی مؤثر اور دلنشین تقریر کی جس میں آنحضرت ﷺکے اوصاف اور اسلام کی اخلاقی خوبیاں بیان کیں۔ اس کے بعد نجاشی نے حضرت جعفر؄ کے قرآن کا کچھ حصہ پڑھنے کی فرمائش کی۔ انھوں نے سورۂ مریم کی چند ابتدائی آیتیں تلاوت کیں۔نجاشی پررقت طاری ہو گئی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اس کے بعد انھوں نے ان فدائیان اسلام کوقریش کے حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔ جب قریش کے وفد کوپہلے روز ناکامیابی ہوئی توانھوں نے دوسرے روز پھرکسی طرح دربار میں رسائی حاصل کی اور شاہ نجاشی کے سامنے عرض داشت پیش کی کہ اُن مسلمانوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق دریافت فرمایا جائے۔مسلمان پھربلائے گئے۔ ان کے لیے یہ بڑی آزمائش کا وقت تھااگرسچ کہتے ہیں توشاہ نجاشی ناخوش ہوتا ہے اور اس کے خلاف کہتے ہیں تودین کے وقار کوصدمہ پہنچتا ہے۔آخر کار انھوں نے یہ طے کیا کہ چاہے جوکچھ بھی ہو انھیں سچ ہی بولنا چاہیے۔ اس روز بھی حضرت جعفر ؄ہی گفتگو کے لیے منتخب ہوئے۔ انھوں نے فرمایا: ” ہمارے نبیﷺ نے ہمیں بتایا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بندے اس کے کلمہ اور اس کی روح ہیں۔‘‘ نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اُٹھایا اور کہا: ” خدا کی قسم! حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں۔‘‘ دربار کے بطریق اور پادری اس پربہت ناراض ہوئے لیکن ناراضی کا ان پرکوئی اثر نہ ہوا۔قریش نے جوتحفے تحائف نجاشی کے حضور میں پیش کیے تھے۔ نجاشی نے سب واپس کردیے اور وفد وہاں سے نامراد مکہ واپس چلا آیا۔ ۶ ہجری میں جس نجاشی کے پاس حضورﷺ نے خط بھیجا اور ۹ہجری میں جس کا انتقال ہوا اور مدینہ میں حضورﷺنے جس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی اس کا نام ’’اصمحہ‘‘ تھا اور یہ بلاشبہ مسلمان ہوگیا تھا لیکن اس کے بعد جو نجاشی تخت پر بیٹھا اس کے پاس بھی حضور ﷺنے اسلام کا دعوت نامہ بھیجا تھا مگر اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اس نجاشی کانام کیاتھا؟اور اس نے اسلام قبول کیا یا نہیں ؟ مشہورہے کہ یہ دونوں مقدس خطوط اب تک سلاطین حبشہ کے پاس موجود ہیں اور وہ لوگ اس کا بے حد ادب و احترام کرتے ہیں ۔ (مدارج النبوۃ ) حضرت ابوہریرہ سے ایک روایت ہے : ” نجاشی نے کہا کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ بے شک اللہ کے رسول ہیں اور وہی نبی ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے۔“ (ابوداؤد ) بعض روایتوں میں ہے کہ انھوں نے حضرت جعفر ؄ کے ہاتھ پربیعت اسلام بھی کی تھی۔ اس طرح حضرت ابوہریرہ ؄ سے ایک روایت کے مطابق رسول اللہﷺ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی موت کی خبر اسی دن دے دی تھی جس دن ان کا انتقال ہوا تھا اور آپ ﷺنے فرمایا تھا کہ اپنے بھائی کی مغفرت کے لیے دعا کرو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں