25

عالمی یومِ ایڈز/تحریر/حافظ بلال بشیر

ایڈز (Acquired Immunodeficiency Syndrome) ایک مہلک اور لاعلاج بیماری ہے جو ایچ آئی وی (HIV) وائرس کے ذریعے پھیلتی ہے۔ یہ وائرس انسانی جسم کے مدافعتی نظام پر حملہ کر کے سی ڈی 4 خلیوں کو تباہ کر دیتا ہے، جس سے جسم بیماریوں اور انفیکشنز کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
عالمی یومِ ایڈز کا آغاز 1988 میں ہوا اور ہر سال یکم دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد ایڈز کے بارے میں شعور اجاگر کرنا، متاثرہ افراد کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا، اور اس بیماری کے خاتمے کی کوششوں کو فروغ دینا ہے۔ 2024 کے عالمی یومِ ایڈز کا موضوع “Take the Rights Path” ہے، جو انسانی حقوق، مساوات، اور تحفظ پر زور دیتا ہے۔ اقوام متحدہ نے 2030 تک ایڈز کے مکمل خاتمے کا ہدف مقرر کیا ہے، جس کے لیے دنیا بھر میں حکومتیں اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔
ایڈز کا آغاز 1981 میں امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں ہوا، جہاں صحت مند افراد میں نایاب نمونیا کی ایک قسم دیکھنے کو ملی۔ تحقیقات سے یہ ثابت ہوا کہ اس کی وجہ ایچ آئی وی وائرس ہے، جو افریقہ کے بندروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ اس کے بعد یہ بیماری دنیا بھر میں پھیل گئی اور عالمی بحران کی شکل اختیار کر گئی۔ اقوام متحدہ کے مطابق، 1981 سے اب تک تقریباً 40 ملین افراد اس بیماری کے باعث جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
ایڈز کے اثرات نہ صرف جسمانی ہیں بلکہ یہ مریض کی ذہنی اور سماجی زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس بیماری کو اکثر سماجی بدنامی کا باعث سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ علاج سے گریز کرتے ہیں۔
اس کے پھیلاؤ کے اہم اسباب درج ذیل ہیں:
1: غیر محفوظ جنسی تعلقات: غیر محفوظ جنسی تعلقات ایچ آئی وی (HIV) اور ایڈز (Acquired Immunodeficiency Syndrome) جیسے جان لیوا وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے تعلقات کے نتیجے میں جسم میں وائرس یا بیکٹیریا داخل ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جو مدافعتی نظام کو متاثر کرتے ہیں اور مختلف انفیکشنز اور بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ نہ صرف افراد کی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ پورے معاشرتی اور اقتصادی نظام پر بھی اثرات مرتب کرتا ہے۔ غیر محفوظ جنسی تعلقات کیا ہیں؟ نکاح کے علاوہ بدکاری کے تمام افعال و کردار غیر محفوظ ہیں اور اس بیماری کے پھیلاؤ میں اوّلین کردار ہم جنس پرستی ہے۔ یہ ایسا قبیح فعل ہے، کہ اس عمل کی وجہ سے قوم لوط پہ سخت عذاب نازل ہوا۔ ان پہ جب اللّٰہ تعالیٰ کا عذاب شروع ہوگیا، سب سے پہلے ایک سخت ہیبت ناک چینخ نے ان کو تہہ وبالا کردیا، پھر ان کی آبادی کو اوپر اٹھا کر زمین کی طرف الٹ دیا گیا، اور پھر اوپر سے پتھروں کی بارش نے ان کا نام ونشان مٹادیا، اور گزشتہ قوموں کی طرح یہ بھی اپنی سرکشی کی وجہ سے انجام کو پہنچے۔ آج بھی نام و نہاد تنظیمیں انسانی حقوق کے نام پہ ہم جنس پرستی پھیلانے میں مصروف عمل ہیں، جس کا انجام صرف اور صرف معاشرے کی تباہی و بربادی ہے۔ غیر محفوظ جنسی عمل اور ایڈز جیسی جان لیوا بیماری سے بچنے کے لیے معاشرے سے جنسی بے راہ روی کو ختم کرنا ہو گا۔ بروقت نکاح کو فروغ دے کر شرعی سزاؤں کا نفاذ کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ، انٹرنیٹ پر موجود غیر اخلاقی مواد کی روک تھام کے لیے فی الفور حکومت کا کردار بھی اہم ہے۔
آلودہ سرنج کا استعمال : آلودہ سرنج کا استعمال ایڈز کے پھیلاؤ کا ایک بڑا ذریعہ ہے، خاص طور پر منشیات استعمال کرنے والے افراد اور غیر محفوظ طبی عمل کے دوران۔ یہ عام طور پر نشے کے عادی افراد ایک ہی سرنج کو بار بار استعمال کرتے ہوئے کرتے ہیں یا طبی مراکز میں غفلت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے عوامی آگاہی مہمات چلانا، نشے کے عادی افراد کو بحالی مراکز تک پہنچانا، طبی مراکز میں ایک بار استعمال ہونے والی سرنج کو یقینی بنانا، اور سرنجوں کی مناسب تلفی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
متاثرہ خون کی منتقلی: متاثرہ خون کی منتقلی بھی ایڈز کے پھیلاؤ کا ایک اہم ذریعہ ہے، خاص طور پر جب خون کو مناسب جانچ کے بغیر منتقل کیا جائے۔ یہ عموماً غیر محفوظ طبی مراکز یا ہنگامی حالات میں جلد بازی کے باعث ہوتا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے خون کی مکمل اسکریننگ کو لازمی قرار دینا، محفوظ خون کے مراکز کا قیام، اور عوام میں آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ لوگ صرف مستند مراکز سے خون حاصل کریں۔

غیر محفوظ طبی آلات : غیر محفوظ طبی آلات، جیسے آلودہ سرنج، سرجیکل آلات، اور ڈینٹل اوزار، ایڈز کے پھیلاؤ کا ایک بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ یہ خطرہ زیادہ تر غیر معیاری طبی مراکز اور غفلت پر مبنی طبی عمل کے دوران پیدا ہوتا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے طبی آلات کی مکمل جراثیم کشی، ایک بار استعمال ہونے والے آلات کا استعمال، اور مستند طبی مراکز کا انتخاب ضروری ہے۔ ساتھ ہی طبی عملے کی تربیت اور احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔
علاج اور بچاؤ: ایڈز کا کوئی مکمل علاج نہیں، لیکن اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی (ART) کے ذریعے وائرس کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس علاج سے مریض ایک بہتر اور طویل زندگی گزار سکتے ہیں۔
پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو تشویش کا باعث ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، پاکستان میں 2 سے 2.5 لاکھ افراد ایچ آئی وی سے متاثر ہیں، لیکن صرف پچاس ہزار افراد نے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام میں رجسٹریشن کرائی ہے۔
وطن عزیز میں اس بیماری کے خلاف آگاہی پیدا کرنا اور عملی اقدامات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسکولوں، کالجوں، اور کمیونٹی سینٹرز میں آگاہی مہمات چلائی جانی چاہیے۔ تاکہ لوگ اس بیماری کے اسباب اور بچاؤ کے طریقے سمجھ سکیں۔ نشے کے عادی افراد کے لیے بحالی مراکز قائم کیے جائیں اور خون کی منتقلی کے عمل کو محفوظ بنایا جائے۔
ایڈز کا ہر مریض غیر محفوظ جنسی عمل کی وجہ سے متاثر نہیں ہوتا، بلکہ اس کے دیگر ذرائع بھی ہیں، جیسا کہ حال ہی میں ملتان کے نشتر اسپتال میں ڈائیلاسز یونٹ کے ذریعے کئی مریضوں میں ایڈز وائرس منتقل ہونے کا واقعہ سامنے آیا۔ اسپتال انتظامیہ کے مطابق، ڈائیلاسز یونٹ میں رجسٹرڈ 240 مریضوں میں سے ایک شخص ایڈز سے متاثر تھا، لیکن اس کے لیے علیحدہ مشین کا انتظام نہیں کیا گیا، جس کے نتیجے میں یہ وائرس دیگر مریضوں تک پھیل گیا۔ یہ واقعہ طبی احتیاطی تدابیر کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، اگر کبھی خدا نخواستہ کسی شخص کو یہ مہلک وائرس کسی ذریعے سے منتقل ہو بھی جائے تو اسے چاہیے فی الفور طبی ماہرین سے رجوع کرے۔
ایڈز کے مریض بھی ایک معیاری زندگی گزار سکتے ہیں اگر انہیں مناسب علاج، دوائیں، اور نفسیاتی مدد فراہم کی جائے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم ان مریضوں کو سماجی بدنامی سے بچائیں اور ان کے ساتھ ہمدردی اور مساوات کا برتاؤ کریں۔ ایڈز ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن اس کے پھیلاؤ کو روکنا ممکن ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی یومِ ایڈز کے موقع پر ہم اس بیماری کے خلاف اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، معاشرے کو تباہی سے بچانے کے لیے جنسی بے راہ روی کو ختم کرنا ہو گا۔ متاثرہ افراد کی ہر طرح سے مدد کرنی ہو گی۔ اگر ہم اجتماعی طور پر اس بیماری کے خاتمے کے لیے کام کریں تو 2030 تک ایڈز کا مکمل خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں