ہاں یہی وہ دن یہی وہ لمحے تھے
فلک سے جب فرشتوں کو فرشتے لینے آئے تھے
16دسمبر 2014ء کو ایک روشن صبح نمودار ہوئی لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ روشن دن تاریخ کے سیاہ دن میں تبدیل ہو جائے گا یہ وہ دن تھا کہ جب دہشت گردوں نے قوم کے مستقبل پر حملہ کیا یہ وہ دن تھا جب سبز ہلالی پرچم معصوم بچوں کے لہو سے سرخ ہو گیا یہ وہ دن تھا جب ہم نے اس عرض پاک کے پھولوں کو مسلتے ہوئے دیکھا اور ماؤں کی گودوں کو اجڑتے ہوئے دیکھا
سنت فرعون ادا ہوئی اسلام کے نام پر
جنت بٹ رہی ہے یہاں بچوں کے اسلام پر
16دسمبر کا وہ سرد دن جب پھولوں کے شہر پشاور میں ایسی خونی داستان رقم کی گئی جو چھوٹے، بڑے، بزرگ سبکے ذہنوں میں نہ مٹنے والے نقوش چھوڑ گئی اس دن طلوع ہونے والا سورج بھی اشکبار ہو کر ڈوبا اس لیے اس دن کو بلیک ڈے کے طور پر بھی یاد کیا جانے لگا۔16دسمبر پاکستان کی تاریخ کا سب سے ہولناک دن تھا جب دہشت گردوں نے نھنے بچوں پر گولیاں برسائی تاریخ میں دہشت گردی جیسے بڑے بڑے واقعات گزرے مگر 16 دسمبر کو ہونے والے سانحہ کو اگر دیکھا جائے تو آنکھوں میں اس جیسا خطرناک اور درد ناک واقعہ نظر نہیں آتا۔
وہ ظلم نہیں بھولے وہ شہادت نہیں بھولے
معصوم فرشتوں کی عبادت نہیں بھولے
بارود کے شعلے وہ تڑپتے ہوئے بچے
ہم لوگ ابھی تک وہ قیامت نہیں بھولے
یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح اور تابناک ہے کہ ازل سے ابد تک،ابتداء سے انتہاء تک، بدی سے نیکی کا،باطل نے حق کا،شر نے خیر کا،نمرود نے ابراہیم علیہ السلام کا،بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا، ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کا،ابو لہب نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا،اور ہندوؤں نے پاکستان کا خاتمہ کرنے کی جدوجہد جاری رکھی مگر تاریخ ظاہر ہے کہ ہر جنگ میں فتح ہمیشہ حق کے ماتھے کا جھومر بنی اسی طرح تاریخ کے اوراق پر نگاہ دہراءیں تو تاریخ میں ایک غضب ناک منظر دیکھنے کو ملتا ہے جب مائیں اپنے بچوں کو اسکول کی طرف روانہ کرتی ہیں اور باپ انکو پہنچاتے ہیں اور ان کی واپسی کا انتظار کرتے ہیں پر انہیں کیا معلوم کہ دس بجتے ہیں اور ہمارا دشمن پشاور اے پی ایس پر حملہ کرتا ہے اور معصوم بچوں کے سینوں پر گولیاں چلاتا ہے تو ان کا خون زمین پر ٹپکتا ہے اور زمین پر ٹپکتے ہیبیہ آواز آتی ہے
خون جگر دے کر نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
16دسمبر کو دہشت گردوں کا بھی گمان تھا وہ بزدل معصوم پھولوں کو نشانہ بنا کر ایسی بے رحم کاروائی کر کے ہمارے حوصلوں کو پست کر دیں گے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ہمارا تعلق اس قوم سے ہے جو جڑ سے جبڑ مٹاتی ہے اور پاکستان کے نونہالوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان کے محافظ کا بیٹا بھی پاکستان کا محافظ ہے اور پاکستان کے مجاہد کا بیٹا بھی پاکستان کا مجاہد ہے پاکستان کی پاک سر زمین کی حفاظت کے لیے اس وطن کا بچہ بچہ چوکنا اور ہوشیار ہے
اس سانحہ نے یہ ثابت کر دیا کہ وقت آنے پر اس قوم کا بچہ بچہ بھی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے نہیں گھبرائے گا ان معصوموں نے کھبی گمان بھی نہ کیا تھا کہ وہ ایسے کسی حملےکا شکار بنیں گے اور امت مسلمہ کے مستقبل کے لیے اپنی پھولوں سی جانوں کے نذرانے پیش کریں گے
پھول دیکھے تھے جنازوں پر ہمیشہ میں نے
کل میری آنکھوں نے پھولوں کا جنازہ دیکھا
وہ شہید بچے خاک میں نہیں بلکہ ہمارے دلوں میں دفن ہیں وہ معصوم بچے مردہ نہیں بلکہ زندہ و جاوید ہیں
موت تو جسموں کو آتی ہے جذبوں کو نہیں موت تو دلوں کو آتی ہے دھڑکنوں کو نہیں وہ شہید آج بھی زندہ ہیں ہمارے خونوں میں، ہمارے حوصلوں میں،اور ہماری فکر میں تا حیات ہیں ہم ان ماؤں کی حمتوں کو سلام پیش کرتے ہیں جو اپنے بچوں کی شہادت پر فخر کرتی ہیں
ہر آنکھ اشکبار ہے ان پھولوں کے لیے
لڑتے تھے جو باغ میں جھولوں کے لیے
نیند اتنی گہری سو گئے ماؤں کے لاڈلے
اب کیسے جگائیں گی انہیں اسکولوں کے لیے
