19

حضرت انسان کی تخلیق/تحریر/ابوبکرصدیق کوہاٹی

متعلم: جامعه صدیقیه(مولانا منظور مینگل صاحب”حفظه الله”)

‏لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ.
(سورۃ التین: آیت: ٤)
ترجمہ:
ہم نے انسان کو بہت خوبصورت سانچے میں ڈال کر خوب اندازے سے بنایا۔
تفسیر:
اس آیت مبارکہ میں رب کریم نے انسان کی تخلیق کے بارے میں ارشاد فرماتے ہوئے لفظِ “تقویم” کا استعمال کیا۔ جو “قیام اور قوام” سے ماخوذ، کسی چیز کے “ثبات اور تقوم” پر دلالت کرتا ہے، “قوام” وہ چیز ہے جس سے کس چیز کا “تحقق” ہو۔
انسان کے اندر بیرونی جہان کی ساری چیزیں موجود ہیں۔ عالمِ روح کے نازک حقائق، عالمِ خلق کے عناصر، نفسِ ناطقہ بھی جو عالمِ عناصر کی پیداوار ہے۔ اس کے اندر ملکی صفات بھی ہیں اور درندوں کے اوصاف بھی، چوپاؤں کی کیفیات بھی اور شیطانی خبائث بھی۔ یہ ان صفات کاملہ سے متصف ہے، جو الٰہی حیات، علم، قدرت، ارادہ، شنوائی، بینائی، کلام اور محبت۔ غرض تمام صفات الوہیت کا پرتو ہیں۔ یہ نورِ عقل سے آراستہ ہے۔ انوارِ ظلی، صفاتی اور ذاتی کا قابل ہے، اسی لیے اس کو خلعتِ خلافت پہنائی گئی اور اسی لیے “إني جاعل في الارض خليفة” فرمایا گیا۔
یہی وہ بات ہے جس پر انجیر و زیتون کے علاقے یعنی شام و فلسطین اور کوہِ طور اور مکہ کے پُرامن شہر کی قسم کھائی گئی۔ بہترین ساخت پر پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اُس کو وہ اعلیٰ درجے کا جسم عطا کیا گیا جو کسی دوسری جاندار مخلوق کو نہیں دیا گیا، اُسے فکر و فہم اور علم و عقل کی وہ بلند پایا قابلیتیں بخشی گئی جو کسی دوسری جاندار مخلوق کو نہیں بخشی گئی، اس کی جبلت و فطرت کو بھی دوسری مخلوقات کے اعتبار سے احسن بنایا گیا اور اُس کی جسمانی ہیئت اور شکل و صورت کو بھی دنیا کے سب جانداروں سے بہتر اور حسین بنایا گیا، چونکہ نوعِ انسانی کے اس فضل و کمال کا سب سے زیادہ بلند نمونہ انبیاء کرام علیہم السلام ہیں، اور کسی مخلوق کے لیے اِس سے اونچا کوئی مرتبہ نہیں ہو سکتا کہ الله تعالی اُسے منصب نبوت عطا کرنے کے لیے منتخب فرمائے، اس لیے انسان کے احسن تقویم پر ہونے کی شہادت میں اُن مقامات کی قسم کھائی گئی جو خدا کے پیغمبروں سے نسبت رکھتے ہیں، کلام کا مقصود یہ ہے کہ ہم نے نوعِ انسانی کو ایسے بہترین ساخت پر بنایا کہ اس میں نبوت جیسے عظیم مرتبے کے حامل انسان پیدا ہوئے۔

انسان تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ حسین ہے
ابن عربی رحمه الله نے فرمایا کہ الله تعالی کی مخلوقات میں کوئی انسان سے اَحسن نہیں، کیونکہ اس کو الله تعالیٰ نے حیات کے ساتھ عالم، قادر، متکلم، سمیع، بصیر، مدبر اور حکیم بنایا ہے اور یہ سب صفات دراصل خود حق سبحانه و تعالی کی ہیں، چنانچہ بخاری و مسلم کی روایت میں آیا کہ:”إِنّ اللّه خَلَق ادم علٰى صُورَتِه” یعنی الله تعالی نے آدم علیه السلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا، مراد اس سے یہی ہو سکتی ہے کہ الله تعالی کی بعض صفات کا کوئی درجہ اس کو بھی دیا گیا ہے، ورنہ حق تعالی ہر شکل و صورت سے بری ہے (قرطبی بحوالہ معارف القرآن ، ص: ١٠٢٨ ، ج: ٨)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کا حسن ظاہر و باطن کے اعتبار سے بھی ہے، حسن و جمال کے اعتبار سے بھی، بدنی ساخت کے اعتبار سے بھی، اس کے سر میں کیسے کیسے اعضا، کیسے کیسے عجیب کام کر رہے ہیں کہ ایک مستقل فیکٹری معلوم ہوتی ہے، جس میں بہت سی نازک باریک خودکار مشینیں چل رہی ہیں یہی حال اس کی سینے اور پیٹ کا ہے اسی طرح اس کے ہاتھ پاؤں کی ترکیب و ہیئت ہزاروں حکمتوں پر مبنی ہے۔ اسی لیے فلاسفہ نے کہا ہے کہ انسان عالم اصغر یعنی پورے عالم کا ایک نمونہ ہے۔ سارے عالم میں جو چیزیں بکھری ہوئی ہیں وہ سب اس کے وجود میں جمع ہیں۔(قرطبی بحوالہ معارف القرآن ، ص: ١٠٢٨ ، ج: ٨)
صوفیائے کرام نے بھی اس کی تائید کی اور بعض حضرات نے انسان کے سر سے پیر تک کا سراپا لے کر اشیائے عالم کے نمونے اس میں دِکھلائے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں