15

نوجوان اور مغربیت کے دام/تحریر/محمد اسامہ پسروری

یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمارے نوجوان جو امتِ مسلمہ کے مستقبل کی امید ہیں آج مغرب کی فکری یلغار کا شکار ہو رہے ہیں۔ وہ جدیدیت کے نام پر اپنی اسلامی اقدار سے دور ہو رہے ہیں، دین سے بیزاری اور الحاد کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال صرف تشویشناک ہی نہیں بلکہ خطرناک بھی ہے، کیونکہ جب کوئی قوم اپنے نظریات، عقائد اور روحانی جڑوں سے کٹ جاتی ہے، تو وہ زوال کی گہری کھائی میں گر جاتی ہے۔

مغربیت کا سحر نوجوانوں کو اپنی چمک دمک سے بہکانے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ میڈیا، فلمیں، سوشل میڈیا، لبرل فلسفے—یہ سب ایک ایسا جال بچھا رہے ہیں جس میں نوجوان اپنی پہچان کھو بیٹھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ آزادی کا مطلب دین سے دوری اور مادر پدر آزادی ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مغرب کا نظام خود داخلی طور پر شکست خوردہ ہے، جہاں بے سکونی، ذہنی دباؤ، اور خاندانی نظام کی تباہی عام ہے۔

آج کل کے نوجوانوں کو مختلف ملحدانہ نظریات کے ذریعے گمراہ کیا جا رہا ہے۔ الحاد کی بنیاد ہی شک اور بے یقینی پر ہے جو دل کو ایک ایسا خلا دے دیتی ہے جو کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ “خدا نہیں ہے” کا نعرہ لگا کر نوجوانوں کو بہکاتے ہیں، وہ خود بھی ذہنی انتشار کا شکار ہوتے ہیں۔ کیا مغرب کے بڑے بڑے سائنسدان، فلسفی، اور ماہرینِ نفسیات خود اس خلا کو پُر کر پائے؟ نہیں بلکہ وہاں خودکشیوں، ڈپریشن، اور بے مقصدیت کا طوفان برپا ہے۔

اسلام محض عبادات کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہے، جو عقل، فطرت اور روح کی تسکین کا ذریعہ ہے۔ وہ نوجوان جو قرآن و سنت کو تھام لیتے ہیں، ان کی زندگی میں مقصد، سکون اور عزت ہوتی ہے۔ نماز، تلاوتِ قرآن، اور سیرتِ نبویؐ پر عمل کرنے والے نوجوان نہ صرف خود باوقار بنتے ہیں بلکہ دنیا میں بھی عزت پاتے ہیں۔

اپنی شناخت پہچانیے! ہم مسلمان ہیں، ہمارا دین کامل ہے، اور ہمیں کسی غیر کے اصول اپنانے کی ضرورت نہیں۔
قرآن و سنت کو اپنی زندگی کا محور بنائیے، تاکہ فکری حملے آپ کو گمراہ نہ کر سکیں۔
علم اور دلیل کے ساتھ دین کو سمجھیں، تاکہ الحاد یا سیکولر ازم جیسے فتنے آپ کو الجھا نہ سکیں۔
اپنے دوستوں اور سوشل سرکل کو دیندار اور مثبت افراد پر مشتمل رکھیں۔ صحبت انسان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔
سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع پر جو لبرل پروپیگنڈا ہو رہا ہے، اسے آنکھیں بند کر کے قبول نہ کریں، بلکہ تحقیق کریں، سوالات کریں، اور سچائی کی تلاش میں رہیں۔

یہ دور نظریاتی کشمکش کا ہے، جہاں ایک طرف اہلِ باطل پوری طاقت سے اپنے نظریات کا پرچار کر رہے ہیں، اور دوسری طرف اہلِ حق حقانیت کی شمع روشن کیے کھڑے ہیں۔ ایسے وقت میں نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اہلِ حق علماء، صالحین، اور اسلامی تحریکوں کے ساتھ جڑیں، تاکہ ان کے ایمان کو تقویت ملے، اور وہ مغربی افکار کی یلغار سے محفوظ رہ سکیں۔
اہلِ حق کے ساتھ جڑنے سے نوجوانوں کو علمی و فکری راہنمائی ملتی ہے۔
ان کے ایمان کو استحکام حاصل ہوتا ہے، اور وہ جدید چیلنجز کا بہتر مقابلہ کر سکتے ہیں۔
اہلِ حق کی صحبت، علم و حکمت سے بھرپور ہوتی ہے، جو نوجوانوں کو ایک مضبوط نظریاتی بنیاد فراہم کرتی ہے۔
یہ تعلق نوجوانوں کو دین پر استقامت عطا کرتا ہے اور انہیں معاشرے میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بناتا ہے۔

آخر میں ایک سوال…

کیا آزادی یہ ہے کہ ہم اپنی جڑیں کاٹ کر بے مقصدیت کے اندھیروں میں بھٹک جائیں؟ یا پھر آزادی یہ ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کے ذریعے اپنی زندگی کو بامقصد اور باعزت بنائیں؟

یقین مانیے، مغرب کی اندھی تقلید ہمیں سوائے نقصان کے کچھ نہیں دے گی، لیکن اگر ہم دینِ اسلام کو مضبوطی سے تھام لیں، اور اہلِ حق کے قافلے کے ساتھ جڑ جائیں، تو دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں گے۔ آج فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے کہ ہم روشنی کی طرف جانا چاہتے ہیں یا تاریکی کی طرف

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں