گزر ہوا اک ایسی رہ سے۔
جہاں پہ تنہا ننھی بچی.
پاؤں سے کچھ کھیل رہی تھی۔
بابا کی وہ پھول کلی تھی۔
ننھےمنھے خواب سجا کر ۔
خوشیوں کے آثار بناکر ۔
خود سے باتیں کرتے دیکھا۔
پھر یوں اچانک ڈرتے دیکھا۔
چپ کے چپ کے پاس گیا جب۔
لرزہ خیز تھے اس کے یہ لب۔
یوں گویا ہوئی خود سے وہ۔
کیوں تنہا ہوئی خود سے وہ ۔
بابا جانی عید کا دن ہے ۔
یعنی آپ کی دید کا دن ہے ۔
سب کے بابا پاس ہیں سب کے ۔
میرے بابا دور ہے کب سے۔
بابا بابا کی ہیں صدائیں۔
بابا اپنے لاڈ لڈائیں ۔
میرے بھی بابا آئیں گے ۔
مجھ سے بھی لاڈلڈائیں گے۔
پھر کیوں تنہا رہ جاتی ہوں۔
ہر دفعہ یہ کہہ جاتی ہوں ۔
مجھ کو رانی کہتے تھے نا۔
ہر پل سامنے رہتے تھے نا۔
کیوں اتنے ہو دور اےبابا۔
غم سے ہوں میں چُور اے بابا ۔
ناز میرے اب کون اٹھائے۔
سینے سے اب کون لگائے ۔
حال مرے پر رحم کرو اب۔
دور ہوئے میرے اپنے سب ۔
مجھ کو ہے معلوم اے بابا۔
آپ ہوئے مرحوم اے بابا۔
ننھے منھے ہاتھ اٹھا کر۔
اور کچھ ننھے اشک بہا کر۔
لفظوں میں کچھ درد ملا کر۔
رنجیدہ سا حلیہ بنا کر۔
یا اللہ میرے بابا کو ۔
پیاری جنت دے بابا کو۔
راقم بولا پیاری بچی۔
کتنی ہے تو من کی سچی ۔
تیری ہوں مقبول دعائیں۔
بابا کی ہوں معاف خطائیں.
بچی سن کر میری دعائیں.
بولی راقم آمین آمین ۔۔