رمضان کی پرنور ساعتیں تھیں۔ گرم ریت پر برستی سورج کی کرنوں کے باوجود مدینہ کی فضا میں ایمان کی ٹھنڈک تھی۔ اہلِ ایمان اپنے رب کے سہارے، اپنے نبیؐ کی قیادت میں ایک ایسے معرکے کے لیے نکلے تھے جسے زمین پر نہیں، آسمانوں پر لکھا جا رہا تھا۔ یہ کوئی عام جنگ نہ تھی، بلکہ حق اور باطل کا فیصلہ کن دن تھا، وہ دن جسے تاریخ “یوم الفرقان” کے نام سے یاد کرتی ہے۔
میدانِ بدر میں ایک طرف چند بے سروسامان مگر پرعزم مجاہد تھے، دوسری طرف عرب کے نامور سرداروں پر مشتمل قریش کی طاقتور فوج۔ تعداد اور ساز و سامان میں زمین آسمان کا فرق تھا، لیکن زمین پر بکھری ریت کے ذرات گواہ ہیں کہ معرکۂ بدر میں فیصلہ تلواروں کی چمک سے نہیں، ایمان کی روشنی سے ہوا تھا۔
جب کفر کا لشکر غرور کے نشے میں جھومتا ہوا بڑھا، تو رحمتِ عالم ﷺ نے اپنے ہاتھ بارگاہِ الٰہی میں بلند کر دیے:
“اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ختم ہو گئی، تو پھر روئے زمین پر تیرا نام لینے والا کوئی نہ ہوگا!”
اور پھر وہ گھڑی آئی جب آسمان سے مدد نازل ہوئی۔ جبریلِ امین اپنے فرشتوں کے لشکر کے ساتھ اترے، اور زمین کی گونج میں اللہ کی نصرت کا اعلان ہونے لگا۔ وہ جنہیں کمزور سمجھا گیا تھا، وہی زمین کے سلطان بن گئے۔ ابو جہل، عتبہ، شیبہ جیسے بڑے سردار خاک و خون میں تڑپتے رہے، اور حق کا پرچم سربلند ہو گیا۔
یہ جنگ صرف تلواروں کی جنگ نہ تھی، یہ نظریات کی جنگ تھی، یہ ثابت قدمی اور ایمان کا امتحان تھا۔ بدر نے یہ پیغام دیا کہ اگر نیت خالص ہو، قیادت سچی ہو، اور بھروسہ اللہ پر ہو، تو فتح مقدر بن جاتی ہے۔ آج بھی، اگر امتِ مسلمہ بدر والوں کا یقین اور استقامت اپنائے، تو باطل کے ایوان لرز سکتے ہیں۔
غزوۂ بدر صرف ایک جنگ نہیں، بلکہ رہتی دنیا تک کے لیے ایک پیغام ہے:
“سچائی ہمیشہ غالب آتی ہے، اور اللہ اپنے مخلص بندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔