رمضان کا چاند نظر آتے ہی ہر طرف ایک روحانی فضا چھا جاتی ہے۔ سحری کے وقت اٹھنے، افطار کے لمحات کا انتظار کرنے، اور عبادات میں مشغول ہونے کا ایک خاص لطف ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا روزہ محض ایک رسم ہے، یا اس کا کوئی حقیقی مقصد بھی ہے؟ کیا ہم روزہ رکھ کر بس بھوک اور پیاس سہنے آئے ہیں، یا اس کے ذریعے اپنی روح کی تربیت کرنی ہے؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة: 183)
“اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔”
یعنی روزے کا اصل مقصد تقویٰ ہے— وہ کیفیت جس میں انسان کا دل اللہ کی محبت اور خوف سے لبریز ہو جائے، جہاں اس کے اخلاق میں نرمی، عبادات میں اخلاص، اور معاملات میں سچائی آ جائے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ دن بھر روزے کی حالت میں غصے سے بھڑک اٹھتے ہیں، بدکلامی کرتے ہیں، کاروبار میں دھوکہ دہی سے باز نہیں آتے، اور دوسروں کے حقوق پامال کرتے ہیں۔ اگر روزہ رکھنے کے باوجود ہمارے کردار میں تبدیلی نہیں آ رہی، تو کیا یہ صرف بھوک اور پیاس کا نام رہ گیا ہے؟
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
كَمْ مِنْ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الْجُوعُ وَالظَّمَأُ (ابن ماجه)
“کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں، جنہیں ان کے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔”
یہ حدیث ہمیں جھنجھوڑتی ہے۔ کہیں ہم بھی ان لوگوں میں شامل تو نہیں جو روزے کو محض ایک روایتی عمل سمجھ کر نبھا رہے ہیں، مگر اپنی زبان، نظر، اخلاق اور نیت کی اصلاح نہیں کر رہے؟
رمضان ہمیں صرف کھانے پینے سے روکنے کے لیے نہیں آیا، بلکہ یہ ہماری روحانی تعمیر نو کا مہینہ ہے۔ اگر ہمارے رویے میں نرمی نہیں آ رہی، اگر ہماری عبادات میں خلوص نہیں بڑھ رہا، اگر ہمارے تعلقات میں بہتری نہیں آ رہی— تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمارا روزہ محض ایک رسم تو نہیں بن گیا؟
آئیے، اس رمضان میں روزے کا حقیقی مقصد سمجھیں۔ بھوک اور پیاس برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی نیت، اخلاق اور عادات کو بھی سنواریں۔ روزہ صرف جسم کا نہیں، دل، دماغ اور روح کا بھی ہو۔ تبھی یہ عبادت ہمیں وہ روشنی دے گی جو ہماری زندگی میں حقیقی تبدیلی لا سکے۔