“بیٹھے بیٹھے سوچا تو یاد” آیا کہ ارے! یہ تو ’رمضان‘ کا ہی “مہینہ” ہے، یہ تو وہی مہینہ ہے، جس میں رب کی ‘رحمتیں’ برستی ہیں، جس میں ‘مغفرت’ کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جس میں ‘نجات’ کے وعدے کیے جاتے ہیں، جس میں ہزاروں لوگوں کو “جہنم” سے چھٹکارا ملتا ہے، یہ تو وہی مہینہ ہے، جس میں “جنت” ہمیشہ (پورا ماہ) کےلیے “کھلی” ہوتی ہے، جبکہ “جہنم” کے دروازے “بند” کر دیے جاتے ہیں، یہ تو وہی مہینہ ہے جس میں ‘قرآن مجید’ کا نزول ہوا، ارے “کون سا قرآن؟” جس کو پڑھنا تو دور کی بات ہم دیکھتے بھی نہیں ہے، جن کی شکل تک ہم پورا سال کھول کے نہیں دیکھتے، جن کو “کھولنا” تو دور کی بات، پورا سال اس کے اوپر سے “گرد و غبار” تک ہم صاف نہیں کرتے، کیا یہی قرآن….؟ ارے نہیں، نہیں، نہیں، بلکل بھی نہیں، بلکہ سنیے!
وہ قرآن جو پچھلی ‘تمام کتب’ کی تصدیق کرتے ہوئے ان پر فوقیت رکھتا ہے، وہ قرآن جو انسانیت کےلیے ‘مکمل ہدایت اور صحیح راستہ’ دکھاتا ہے، قرآن مجید میں “رب کریم کا ارشاد” ہے “یہ کتاب ایسی ہے جس میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے پرہیزگاروں کےلیے”۔
وہ قرآن جس کی تلاوت کر کے گناہ معاف ہو کر نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے، وہ قرآن جو قیامت کے روز اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کرے گا، وہ قرآن جس کے پڑھنے میں دلوں کا چین اور سکون ہے، جو اپنے پڑھنے والے کو دنیا و آخرت میں کامیاب کر دیتا ہے، وہ قرآن کہ جس جگہ پڑھا جائے وہاں “رحمت کے فرشتوں” کا نزول ہو، وہ قرآن جو شیطان کو بھگا کر، برے خیالات کو دور کرتا ہے، جو ایک بہترین عبادت کے ساتھ ساتھ درجات کو بھی بلند کرتا ہے، قبر میں روشنی اور آخرت میں درجات کی بلندی کا سبب بنتا ہے، جی وہی قرآن جو “ہدایت کا سرچشمہ” اور لوگوں کےلیے “ہدایت کا نمونہ” ہے، جس میں روشنی ہے جو راہ دکھلاتی ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں لیلۃ القدر بھی ہے، لیلۃ القدر ہی وہ رات ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا، جس رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل قرار پائی، جس رات رحیم ذات اپنے بندوں کی مغفرت کرتے ہوئے گناہوں کی معافی دیتا ہے، رب کی رحمتیں بھرپور ہوتی ہیں، ساتھ دعاؤں کی قبولیت تو ظاہر ہے، اور تو اور نیک اعمال کا اجر بھی بہت زیادہ ہو جاتا ہے، رات امن و سکون والی اور اس میں رب کریم اپنے بندوں کو جہنم سے چھٹکارا بھی دیتا ہے، اسی رات میں رب کی رضا و خوشنودی کا حصول مزید آسان ہو جاتا ہے، انسان کی روح اور جسم کو پاکیزگی ملتی ہے اور ہاں اس رات کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرنا بھی تو عبادت ہی ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں اعتکاف جیسی عظیم نعمت سے ہمیں نوازا گیا، یہی تو ہے وہ عظیم مہینہ، جس میں نفل بھی فرض کے درجے تک پہنچ جاتے ہیں، جو درجہ پورے سال فرض نمازوں کا ہوتا ہے، وہی درجہ رمضان میں نوافل کا ہو جاتا ہے۔ اس سے بڑی سعادت کیا ہو سکتی ہے۔ یہی تو ہے وہ مہینہ جس میں ہم ایک آنسو کے بدلے جہنم سے چھٹکارا پا سکتے ہیں، ایک آنسو کے بدلے ہم الله کو راضی کر سکتے ہیں، ہم اس ماہ میں الله سے ہر وہ کام منوا سکتے ہیں جو شرعی طور پر جائز ہو، تو پھر کیوں، ہم نے بھلا دیا کہ یہی تو رمضان ہے…؟؟ یہی تو وہ ماہ ہے جس میں یہ سب ممکن ہے…؟؟ ہم کیوں اپنی موج مستیوں میں لگ گئے…؟؟ کیا ہم نے رمضان کا مہینہ صرف فضائل سننے سنانے تک محدود کر دیا…؟؟
ہم نے تو اعمال کرنے ہی چھوڑ دیے کہ ویسے بھی برکتوں والا مہینہ ہے، بلکہ ہم میں سے تو بہت ساروں نے روزہ رکھنا بھی چھوڑ دیا کہ الله معاف کرنے والا غفور الرحیم ہے۔ ہم نے تو قرآن مجید کی تلاوت بھی چھوڑ دی، کیونکہ وقت اس پر زیادہ لگتا ہے۔ ہم نے ذکر و اذکار بھی ترک کر دیے، کون کرے گا لمبی لمبی تسبیحات۔ ہم نے تو صلاۃ التسبیح بھی ترک کر دی، جس کے فضائل اور ثواب ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے تو رمضان میں نوافل ہی چھوڑ دیے بلکہ فرض نماز کےلیے بھی بمشکل پہنچتے ہیں۔ ہم نے تو اس ماہ کو عیش و عشرت کا مہینہ سمجھ لیا، اسے آرام، چین اور سکون کا مہینہ سمجھ لیا، پوری رات سحری کے انتظار میں جاگ کر گزار لیتے ہیں، جبکہ پورا دن افطاری کےلیے سونے میں گزار دیتے ہیں۔ دن کی نماز ہے، نہ دن میں نوافل، نہ قرآن کی تلاوت، نہ ذکر و اذکار، نہ تسبیحات، نہ دعائیں، نہ اور کوئی اعمال ہم کر پائے۔ کیونکہ رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔
ارے میرے بھائی، بہنوں! حضورﷺ تو بخشے بخشائے تھے، پھر بھی رمضان آتا تو بستر گول کر کے رکھ دیتے کہ عید کے بعد اس کو بچانا ہے۔ پورے رمضان کمر سیدھی کر کے لیٹنا انہیں گوارا نہیں تھا، آج ہم ان کے امتی بن کر پورا دن لیٹ کر نمازوں کو بھی چھوڑ دیتے ہیں، کتنی افسوس کی بات ہے نا…!!!
اب بھی وقت ہے، ابھی ایام باقی ہیں، جو ہو گیا، سو ہو گیا، اب تو باز آجائیے، اب بھی بہت کچھ سمیٹا جا سکتا ہے، بہت کچھ پایا جا سکتا ہے، رب سے بہت کچھ منوایا جا سکتا ہے، جہنم سے چھٹکارا ہو یا اپنے گناہوں کی معافی تلافی، اپنے لیے جنت کا پروانا ہو یا پھر جنت کی راہ ہموار کرنی، کچھ ہاتھ سے نہیں گیا۔ ارے بابا کچھ نہیں گزرا، یہ گنتی کے چند ایام جو رہ گئے ان کی قدردانی کر لے، ان کی خیر منائے، ان کو اسی طرح گزار لے جس طرح گزارنے کا حکم ہے ان میں وہ اعمال کر لے کرنے کا حکم ہے، ان میں ان ‘گناہوں” سے بچیں جن سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، خود بھی نیک کام کریں، دوسروں کو بھی نیکی کی ترغیب دیں، خود بھی صدقہ کریں، دوسروں کو بھی صدقے کی ترغیب دیں، کینہ، حسد، بہتان، غیبت جیسے غلیظ کاموں سے خود بھی بچیں اور دوستوں کو بھی ترغیب دیں۔ اگر آپ کے ایک قول و عمل سے بھی اس بابرکت ماہ میں کسی کو ہدایت نصیب ہو یقین جانیں آپ کےلیے کیا کچھ مل گیا وہ میں بیان نہیں کر سکتا، عام حالات میں بھی کوئی بندہ ایک نیکی کرے تو اس کےلیے دس کا بدلہ دیا جاتا ہے۔ یہ تو پھر رمضان ہے! یہاں تو وہ کچھ دیا جائے گا جو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے، سب سے بڑھ کر اس ماہ کے جو خاص ایام ہیں ان کا ہم اہتمام کے ساتھ پابندی کرے جیسے روزہ، تراویح، فرض نمازیں، قرآن مجید کی تلاوت، ذکر و اذکار اور تسبیحات سمیت یہ موٹے موٹے چند کام ہیں ہم ان کو ہی اپنانے کی کوشش کریں ان شاء الله، الله ہمیں اس پر بھی وہ کچھ عطا فرما دےگا، جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا، التجاء ہے رب لم یزل سے کہ اے رب کریم! ہمیں اس بابرکت ماہ کی قدردانی کی توفیق عطا فرما اور ہمیں اس میں ڈھیر سارے اعمال کی توفیق عطا فرما۔
آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین۔
