رمضان المبارک کی برکتوں سے فیض یاب ہوتے ہوئے، اللہ کے فضل سے اس مقدس مہینے کا آخری عشرہ شروع ہے۔ یہ ہر مسلمان کے لیے خوشی اور شکر کا موقع ہے کہ رب کریم نے ہمیں صحت و توانائی دی کہ ہم اس مبارک مہینے کے تقاضے پورے کر سکیں، اور روزہ جیسی فرض کی گئی عظیم عبادت کا حق ادا کرسکیں۔ رب تعالیٰ کے حضور اس کا جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے۔
جب ماہ مقدس رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہو جائے تو ایک مسلمان کو جہاں اس مہینے کے ختم ہونے کی اداسی اور غم ہوتا ہے، وہیں خداے بزرگ و برتر کے طرف سے عید جیسے پر مسرت اسلامی تہوار کی آمد کی خوشی بھی ہوتی ہے۔ لہذا ہم سب ہی عید کی تیاری میں بھی ساتھ ساتھ مگن ہوجاتے ہیں۔ نئے کپڑے ہوں یا نئے جوتے، میچنگ چوڑیاں اور مہندی ہو یا مسحور کن خوشبوئیں، یا پھر دوستوں احباب کے ساتھ عید ملن پارٹی کے پروگرام، گویا ہر طرح سے عید کی تیاری پرجوش طریقے سے ہورہی ہوتی ہے۔ یقیناً پورا ماہ روزے سے گزارنے کے بعد امت مسلمہ کو اپنی اقدار میں رہتے ہوئے اس اسلامی تہوار کو خوب منانا چاہیے تاہم، یہ خوشی صرف ہمارے لیے محدود نہ رہے بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں کو بھی اپنی مسرت میں شریک کریں۔ خاص طور پر وہ جو مالی تنگی کے باعث عید کی خوشیوں سے محروم رہ سکتے ہیں۔ غریب رشتہ داروں، ہمسائیوں اور دیگر ضرورت مندوں کی مدد کرکے ہم حقیقی معنوں میں عید کی خوشیوں کو مکمل کر سکتے ہیں۔ اسی لیے اسلام میں صدقہ فطر کو فرض کیا گیا ہے تاکہ ہر شخص عید کی مسرتوں میں شامل ہو سکے۔
اپنی خوشیوں میں اتنا مگن ہونا کہ غریب رشتہ دار اور پڑوسی بھول جائیں، یہ شرعاً بھی ناپسندیدہ ہے۔ انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنا کر چلیں اور اپنی خوشیوں میں سب کو شامل رکھیں۔ غریب تعلق داروں کو اپنی مسرتوں میں شامل کرنے کا بہترین ذریعہ ان سب کی مالی معاونت ہے۔ کسی مخصوص چیز مثلاً کپڑے، جوتے وغیرہ سے مدد کرنا بھی درست ہے، البتہ مالی مدد کرنے میں یہ فائدہ ہے کہ وہ اپنی مرضی اور خوشی سے خرچ کرکے جو کچھ لینا چاہیں گے، لیں گے۔ اس سے انہیں زیادہ خوشی حاصل ہوگی اور مقصد بھی یہی ہے کہ انہیں خوش کیا جائے۔ صدقہ فطر کو اسی لیے لازم کیا گیا ہے تاکہ استطاعت رکھنے والوں کے مال کا کچھ حصہ انسانیت کے اس طبقہ میں چلا جائے جو غریب کہلاتے ہیں، تاکہ وہ خوشی و شادمانی کا ساماں کرسکیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ صدقۂ فطر روزوں میں ہونے والی لغزشوں کا کفارہ اور مساکین کے لیے رزق کا ذریعہ ہے (ابوداؤد)۔ یہ نہ صرف ہماری کوتاہیوں کا ازالہ کرتا ہے بلکہ غریبوں کی مدد کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ لہٰذا، ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ بروقت صدقۂ فطر ادا کرے تاکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرے اور عید کے دن حقیقی خوشی حاصل کرے۔
صدقہ فطر اور زکوۃ کے معاملات میں اگر ہم غفلت نہ کریں اور اسلامی احکام کے عین مطابق بروقت صدقہ فطر اور زکوۃ کی ادائیگی کے پابند ہوں تو ان گنت، بے شمار غرباء و مساکین کو عید کی خوشیوں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس کمزوری کا شکار ہے کہ وہ زکوۃ اور صدقہ فطر میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں حالانکہ صدقۂ فطر یا زکوۃ ہر اس مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو عید الفطر کے دن اس قدر مالیت کا مالک ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی (تقریباً 612 گرام) یا ساڑھے سات تولہ سونے کے برابر ہو۔ اس میں نقدی، زیورات یا بنیادی ضروریات سے زائد اشیاء شامل ہیں۔ بنیادی ضروریات میں رہائشی مکان، روزمرہ کے کپڑے، برتن اور دیگر ضروری سامان شامل ہیں، جو زندگی گزارنے کے لیے لازمی سمجھے جاتے ہیں۔ اگر کسی شخص کے پاس ان ضروریات کے علاوہ قیمتی کپڑے، فرنیچر، برتن، دکان کا مال، اضافی زمین، کرائے کے مکانات یا سال بھر سے زائد کے لیے ذخیرہ شدہ اجناس موجود ہوں، اور ان کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، تو اس پر صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہوگا۔ اسی طرح، اگر کسی کے پاس ذاتی استعمال سے زیادہ مالیت کے مویشی، کاروباری سرمایہ یا قیمتی اشیاء ہوں، اور ان کی مالیت چاندی کے نصاب کو پہنچ جائے، تو وہ بھی صدقۂ فطر ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ صدقۂ فطر ادا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے مستحق افراد عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں اور ان کی ضروریات پوری ہوسکیں۔
فطرانے کی رقم ماہ رمضان المبارک میں ہی ادا کردینا چاہیے۔ تاکہ غریب حضرات بروقت اپنا ضروری سامان خرید سکیں اور عید کی خوشیوں میں شامل ہوجائیں۔ اگر رمضان المبارک میں صدقہ فطر نہیں دیا تو نمازِ عید الفطر سے پہلے پہلے ادائیگی لازم ہے۔ احادیث میں بھی اسی بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ اور نہیں تو کم از کم عید الفطر کی نماز سے پہلے پہلے فطرانہ ادا کردیں۔
قرآن کریم کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس گہرائی سے انسانی نفسیات کو مخاطب فرماتے ہیں اور اصلاح و فلاح کے ایک ایک پہلو پہ توجہ دلاتے ہیں۔ سورہ الانبیاء میں فرمایا کہ ترجمہ: ”ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے، مال، جان اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے“۔ اب قرآن کریم کی اس آیت کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مال کی کمی کرکے یعنی غریب کرکے آزمائش میں مبتلا کریں گے۔ آیت کریمہ کا دوسرا پہلو یہی نکلتا ہے کہ یہ صرف غریب کی غربت کا امتحان نہیں بلکہ اہل ثروت کے مال و دولت کا بھی امتحان ہے۔ جہاں غریب کو صبر و تحمل سے رہنے اور اللہ تعالیٰ کے شکوے سے بچنے کا درس دیا جائے گا، وہیں استطاعت رکھنے والوں کی امیری کو بھی پرکھا جائے گا۔ انہیں چاہیے کہ وہ رب تعالیٰ کے دیے ہوئے رزق پہ شکرگزار رہیں اور غریب لوگوں کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کے لیے اپنی دولت کا کچھ حصہ غریبوں پر ضرور صرف کریں۔
یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ اس فانی دنیا میں نہ غریب نے ہمیشہ غریب رہنا ہے، نہ اہل ثروت ہمیشہ مال و دولت میں کھیلیں گے۔ اس لیے اللہ تعالٰی کی نعمتوں کی قدر دانی یہی ہے کہ اس کے بندوں پہ خوب خرچ کیا جائے۔ ماہ مقدس رمضان المبارک ہمیں جن مقاصد کے لیے دیا گیا ہے، ان کا صحیح حق تب ادا ہوگا کہ روزے رکھ کر جو روحانیت حاصل کی گئی، اللہ تعالیٰ سے جو تعلق بنایا گیا اس کی حفاظت کا انتظام کرنا بھی لازم ہے۔ اور وہ انتظام ایسے ہی پایہ تکمیل کو پہنچے گا کہ رمضان المبارک کے بعد والی زندگی بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق گزاری جائے، اور احکام الٰہی میں سے نمایاں حکم غریبوں پہ خرچ کرنے، اپنی خوشیوں اور عیدوں میں شامل کرنے کا ہے۔ اللہ لکھو کے ساتھ لکھوتعالیٰ رزق والوں کو برکت دے اور غریب رشتہ دار، دوست احباب اور تعلق داروں پہ خرچ کرنے والا بنائے۔ آمین