30

غزہ ایک امتحان اور ہماری ذمہ داری/تحریر/ام محمد عبداللہ

یہ وقت خاموشی کا نہیں، آواز بلند کرنے کا ہے۔ یہ وقت علم اور شعور کے نور سے اپنے دلوں کو منور کرنے کا ہے تاکہ ہم فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہو سکیں اور حق و انصاف کی اس جنگ میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔

غزہ میں جاری ظلم انسانی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں سے ایک ہے۔ معصوم شہریوں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر بے دردی سے کیے جانے والے مظالم عالمی قوانین اور انسانی ضمیر کی تمام حدود کو پامال کر رہے ہیں۔ قابض قوتیں اس ظلم کو اپنا حق سمجھتی ہیں، جبکہ عالمی برادری کی بے حسی اور مسلم امہ کی خاموشی اس ظلم کو مزید تقویت دے رہی ہے۔

امت مسلمہ کی بے حسی اور دینی فریضہ

یہ وقت بے حسی کا نہیں، بیداری کا ہے۔ بیت المقدس صرف ایک زمینی تنازعہ نہیں بلکہ ایک دینی و روحانی مرکز ہے۔ یہ وہی مقدس زمین ہے جہاں سے نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے، جہاں تمام انبیاء نے آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی، اور جو محبوب و مسجود الانبیاء کی سرزمین کہلاتی ہے۔ امت مسلمہ کو اس مقام کی حقیقی اہمیت کو سمجھنا ہوگا تاکہ بے حسی کے بجائے عملی اقدامات کیے جا سکیں۔

عقیدہ الولاء والبراء اور ہمارا مؤقف

اسلام میں عقیدہ الولاء والبراء بنیادی عقائد میں سے ہے، جو یہ سکھاتا ہے کہ مسلمان کو اللہ، اس کے رسولﷺ، اور ایمان والوں سے محبت رکھنی چاہیے اور کفار و ظالموں سے براءت کا اظہار کرنا چاہیے۔ آج فلسطین کے معاملے میں بھی ہمیں مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور ظالموں سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے۔ ہر ممکن طریقے سے فلسطینی مسلمانوں کی حمایت ہمارا دینی فریضہ ہے۔

تاریخی پس منظر اور شعور کی ضرورت

مسئلہ فلسطین کوئی حالیہ تنازعہ نہیں بلکہ صدیوں پر محیط سازشوں اور جنگوں کا نتیجہ ہے۔ صلیبی جنگوں سے لے کر سلطنت عثمانیہ کے زوال تک، مسلمانوں نے ہمیشہ اس مقدس سرزمین کے دفاع کے لیے قربانیاں دیں۔ 1917 میں بالفور اعلامیہ کے ذریعے برطانوی سامراج نے یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کیا، اور 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد ظلم و جبر مزید بڑھ گیا۔

یہی وہ زمین ہے جہاں قیامت کے دن میدانِ حشر بپا ہوگا، جہاں دجال کے فتنے کا خاتمہ ہوگا، جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور امام مہدی کی خلافت قائم ہوگی۔ اگر امت مسلمہ ان تاریخی اور دینی حقائق کو جان لے، تو شاید وہ اس بے حسی کا شکار نہ رہے جو آج ہمیں نظر آتی ہے۔

لائحہ عمل: طویل المدتی اور فوری اقدامات

طویل المدتی اقدامات:

  1. قرآن و حدیث کے ذریعے امت میں بیت المقدس کی اہمیت و فضیلت سے متعلق شعور بیدار کرنا۔
  2. تعلیمی اداروں، مدارس اور گھروں میں فلسطین کے مسئلے پر مستقل آگاہی فراہم کرنا۔
  3. سوشل میڈیا، کتابوں، ویڈیوز، لیکچرز اور سیمینارز کے ذریعے علمی اور فکری بنیادیں مضبوط کرنا۔
  4. نوجوان نسل کو فلسطین کے تاریخی اور اسلامی پس منظر سے روشناس کرانا۔

فوری اقدامات:

  1. فلسطینی عوام کے لیے دعا کرنا۔
  2. مظلوموں کی حمایت میں آواز بلند کرنا اور ظلم کے خلاف احتجاج کرنا۔
  3. قابض قوتوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنا۔
  4. اپنی تحریروں، تقاریر اور دیگر ذرائع سے فلسطین کی حمایت کرنا۔

اتحاد اور استقامت کی ضرورت

یہ وقت اگلی نسل کو بے حسی نہیں، امت کا درد منتقل کرنے کا ہے۔ فلسطین کی آزادی ایک خواب نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے جسے ہماری نسلوں کو اپنی کوششوں، دعاؤں اور اتحاد کے ذریعے ممکن بنانا ہوگا۔ دشمن نے اپنی سازشوں کو صدیوں پہلے ترتیب دیا، ہمیں بھی اسی استقامت اور حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ تفرقہ بازی سے بچتے ہوئے، ہمیں ہر اس کوشش کا حصہ بننا چاہیے جو فلسطین کے لیے ہو، چاہے اس کا طریقہ ہم سے مختلف ہو۔

یہ وقت خاموشی کا نہیں، آواز بلند کرنے کا ہے۔ یہ وقت علم اور شعور کے نور سے اپنے دلوں کو منور کرنے کا ہے تاکہ ہم فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہو لکھو کے ساتھ لکھوسکیں اور حق و انصاف کی اس جنگ میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں