نریندر مودی کی قیادت میں بھارت نے جس شدت پسندانہ اور جارحانہ طرزِ عمل کو اپنایا ہے، وہ نہ صرف خطے کے امن کے لیے خطرہ بن چکا ہے بلکہ خود بھارت کے اندرونی حالات کو بھی عدم استحکام کی طرف دھکیل رہا ہے۔ مودی بارہا پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات لگا کر عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ دہشتگردی کی کئی اقسام میں خود بھارت کا ریاستی کردار واضح اور ناقابلِ تردید ہے۔
مودی کی سیاست کا مرکز ہی انتہا پسندی اور ہندوتوا نظریے پر استوار ہے۔ گجرات کے فسادات ہوں یا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، ہر جگہ مودی حکومت کے اقدامات ایک منظم شدت پسندانہ ایجنڈے کی عکاسی کرتے ہیں۔ آر ایس ایس جیسی تنظیمیں، جنہیں مودی کی پشت پناہی حاصل ہے، کھلے عام اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیزی اور تشدد میں ملوث رہی ہیں۔ مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں پر حملے اب روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں، اور حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
نریندر مودی کی حکومت نے میڈیا کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ بھارتی ٹی وی چینلز اور اخبارات کا بڑا حصہ آج حکومتی پروپیگنڈے کا آلہ کار بن چکا ہے، جہاں پاکستان مخالف بیانیہ دن رات عوام پر تھوپا جاتا ہے۔ جھوٹے فالس فلیگ آپریشنز، جیسے پلوامہ حملہ، کی بنیاد پر نہ صرف پاکستان پر الزام تراشی کی جاتی ہے بلکہ بھارتی عوام کے جذبات کو بھڑکا کر سیاسی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ علاقائی امن کو بھی شدید خطرے میں ڈال دیتا ہے۔
اس کے علاوہ، بھارت کی خفیہ ایجنسی را (RAW) کی سرگرمیاں پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں میں ملوث پائی گئی ہیں۔ پاکستان نے متعدد بار ثبوتوں کے ساتھ عالمی برادری کو آگاہ کیا ہے کہ کس طرح بھارت بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو سپورٹ کرتا رہا ہے۔ کلبھوشن یادیو جیسے جاسوس کی گرفتاری اور اعترافِ جرم اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت دہشتگردی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ ایسے میں جب خود بھارت کی ریاستی مشینری دہشتگردی کو فروغ دے رہی ہو، تو پاکستان پر الزامات عائد کرنا محض ایک دھوکہ اور سیاسی چال کے سوا کچھ نہیں۔
عالمی اداروں اور اقوامِ متحدہ کی رپورٹس نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تصدیق کی ہے، مگر بھارت نہ صرف ان الزامات کو مسترد کرتا ہے بلکہ اس پر بات کرنے والوں کو بھی غدار اور ملک دشمن قرار دیتا ہے۔ یہ رویہ کسی جمہوریت کا نہیں، بلکہ ایک فاشسٹ ریاست کا عکاس ہے، جہاں اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری بھارت کے اس دوغلے رویے کا نوٹس لے۔ جو ملک خود اقلیتوں کو دبانے، ہمسایہ ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے، اور فسطائیت کو فروغ دینے میں ملوث ہو، وہ دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں کسی بھی طرح کا معتبر کردار ادا نہیں کر سکتا۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ سفارتی محاذ پر بھارت کی اصلیت کو مسلسل بے نقاب کرتا رہے تاکہ دنیا کو اصل دہشتگردی کے منبع کا ادراک ہو سکے۔
بھارت میں سیکولر ازم محض ایک کھوکھلا نعرہ/تحریر/سلمان احمد قریشی
لکھو کے ساتھ لکھو