Silent Mujahid/Tahrir/Hafiz Zeeshan Ahmed/Karachi 0

خاموش مجاہد/تحریر/حافظ ذیشان احمد /کراچی

انسان محض گوشت پوست کا پتلا نہیں، بلکہ وہ ایک ذمہ داریوں سے بندھا ہوا ایسا مسافر ہے، جس کی زندگی کا ہر قدم کسی نہ کسی تعلق اور رشتے کے گرد گھومتا ہے۔ اسلام انسان کو صرف حقوق اللہ کی دعوت نہیں دیتا، بلکہ حقوق العباد کو بھی اسی شدت سے لازم قرار دیتا ہے۔ جب رشتوں کی بات آئے تو قرآن و سنت کی تعلیمات ایک مرد کی قربانی کو نظر انداز نہیں کرتیں بلکہ اسے سراہتی بھی ہیں۔

دنیا کی گہما گہمی میں اگر کبھی کسی لمحے کو روکا جا سکے، کسی نظر کو جھکایا جا سکے اور کسی دل کو جھنجھوڑا جا سکے تو وہ لمحہ اُس انسان کا ہے، جو سورج کی تپش سے تپتی ہوئی دوپہروں میں، یا نیند سے بوجھل راتوں میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے رزق کی تلاش میں نکلا ہوتا ہے۔

یہ وہ مرد ہے جس کے کندھوں پر رشتوں کا بوجھ ہے، جس کے سینے میں معاشی ذمہ داریوں کا طوفان ہے، اور جس کی خاموشی میں قربانیوں کی ایک لازوال داستان چھپی ہوتی ہے۔

یہ مرد کسی منبر پر، بازاروں میں، دفاتر میں، کھیتوں میں، رکشہ چلاتے، کوڈ لکھتے، اینٹیں ڈھوتے یا کمپیوٹر کے سامنے جھکے ہوئے ایک ایسا “خاموش مجاہد” ہے، جو دن کو اپنی ہڈیوں کا ایندھن بناتا ہے اور رات کو بچوں کی نیند میں اپنے تھکے وجود کو دفن کر دیتا ہے۔

ایسا مرد بظاہر مضبوط دکھائی دیتا ہے، مگر اندر سے وہ نہایت نازک دھاگوں سے جُڑا ہوتا ہے — یہ دھاگے اس کے رشتے ہیں۔

قرآن کہتا ہے:
“وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً ۗ أَتَصْبِرُونَ ۗ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًا”
(الفرقان: 20)
“اور ہم نے تم میں سے بعض کو بعض کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ کیا تم صبر کرو گے؟ اور تیرا رب سب کچھ دیکھنے والا ہے۔”

رشتے، جہاں سکون کا سبب ہیں، وہیں قربانی کا بھی میدان ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“كَفى بِالمرءِ إِثْمًا أَنْ يُضَيِّعَ مَنْ يَقُوتُ”
(ابو داؤد)
یعنی: آدمی کے گناہ گار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے زیرِ کفالت افراد کو ضائع کر دے۔

گویا گھر والوں کی ضروریات پوری کرنا، ان کے لیے دوڑ دھوپ کرنا، ایک مجاہد کا سا عمل ہے۔ مگر یہ جہاد تلوار کے بجائے صبر، برداشت، حکمت اور قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں مرد اپنے خوابوں کو مؤخر کرکے دوسروں کی خوشیوں کو ترجیح دیتا ہے۔

باپ ہونا صرف اولاد کا خرچ اٹھانا نہیں، بلکہ ان کے خوابوں، خواہشوں اور کمزوریوں کی حفاظت کا نام ہے۔ شوہر ہونا محض نان نفقہ دینا نہیں، بلکہ بیوی کے جذبات، تحفظ اور اعتماد کا محافظ بننا ہے۔ بیٹا ہونا ماں باپ کے بڑھاپے کا سہارا بننا ہے، اور بھائی ہونا بہن کی عزت و خوشی کا نگہبان ہونا ہے۔

یہ تمام ذمہ داریاں مرد کے گرد یوں لپٹی ہوتی ہیں جیسے ہوا میں نمی… نظر نہ آئے مگر وجود کا حصہ ہو۔ اسلام نے اس مرد کی ان ذمہ داریوں کو محض معاشرتی فریضہ نہیں بلکہ عبادت کا درجہ دیا ہے۔

اسلام مرد اور عورت دونوں کی ذمہ داریوں کو ایک متوازن اور باوقار نظام کے تحت تقسیم کرتا ہے۔ مرد کو قوام (نگہبان) بنایا گیا ہے:
“الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ…” (النساء: 34)
یعنی مرد عورتوں کے نگہبان ہیں، کیونکہ اللہ نے ان میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

یہ خرچ محض روٹی اور کپڑے تک محدود نہیں — یہ وقت، توجہ، برداشت، اور جذبات کا خرچ بھی ہے۔
آج کا مرد اگر چپ ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بے حس ہے، بلکہ شاید وہ ساری رات کی نیند قربان کر کے بھی دن بھر کی مسکراہٹ اپنے بچوں کے لیے بچا کر لاتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ خود اپنی بیویوں کے ساتھ نرمی اور محبت کا نمونہ تھے۔ حضرت خدیجہؓ کی مالی قربانیوں کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی ذہنی و جذباتی وابستگی بھی اُس وقت تک برقرار رہی جب وہ اس دنیا سے جا چکی تھیں۔

آپ نے فرمایا:
“خیرکم، خیرکم لأهله، وأنا خیرکم لأهلي”
(ترمذی)
“تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہو، اور میں تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔”

یہی وہ اسوہ ہے جس سے آج کے مرد کو جینے کا سلیقہ سیکھنا ہے — محبت اور قربانی کے سنگم پر۔

افسوس کہ جدید معاشرہ مرد کی قربانیوں کو مشین کے عمل کی طرح دیکھتا ہے۔ شوہر اگر کماتا ہے تو فرض سمجھا جاتا ہے، باپ اگر بچوں کی فیس دیتا ہے تو لازم مانا جاتا ہے، بیٹا اگر والدین کا علاج کرواتا ہے تو وہ “کچھ خاص نہیں کرتا۔”
جبکہ اسلام اس سب کو ایک مسلسل صدقہ جاریہ قرار دیتا ہے۔

نبی ﷺ نے فرمایا:
“دينارٌ أنفقتَه على أهلك، ودينارٌ أنفقتَه في سبيل الله، وأفضلُها الدينارُ الذي أنفقتَه على أهلك”
(مسلم)
“جو دینار تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو، یا غلام آزاد کرنے میں، یا مسکین پر خرچ کرو، ان سب میں سب سے افضل وہ ہے جو تم اپنے گھر والوں پر خرچ کرو۔”

کیا سماج اس قربانی کو جانتا ہے؟ کیا کوئی شاعر مرد کے پسینے کو نظم کا عنوان بناتا ہے؟ کیا کوئی فنکار اس کے خالی ہاتھوں کو فن کا استعارہ بناتا ہے؟
نہیں — کیونکہ یہ قربانی خاموش ہے، یہ جہاد بے آواز ہے۔

ہمیں بحیثیت معاشرہ، مرد کو صرف “کمانے والا” نہ سمجھنا چاہیے بلکہ “برداشت کرنے والا”، “تحمل کرنے والا”، اور “چپ چاپ نبھانے والا” انسان بھی تسلیم کرنا چاہیے۔ اس کے چہرے کی لکیروں میں قربانیوں کی داستانیں لکھی ہوتی ہیں — بس ہمیں پڑھنا نہیں آتا۔

جب ہم مرد کے اس پہلو کو سمجھیں گے، تب خاندان، معاشرہ اور انسانیت میں وہ توازن واپس آئے گا جسے اسلام نے بطورِ نعمت نازل فرمایا ہے۔

لکھو کے ساتھ لکھو

اسلامی تعلیمات

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں