teachers-martyrdom-an-attack-on-knowledge-or-a-reflection-of-social-decline-written-by-muhammad-hassanin-muavia 0

استاد کی شہادت، علم پر حملہ یا معاشرتی زوال کا آئینہ؟/تحریر/محمدحسنین معاویہ

مردان کے علاقے کاٹلنگ میں پیش آنے والا اندوہناک واقعہ ہر حساس دل کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہے۔ ایک دینی مدرسے کے محترم استاذ مولانا عبیداللہ محض سبق یاد نہ کرنے پر شاگرد کو تھپڑ مار بیٹھے، جو یقیناً سختی کے بجائے اصلاح کی نیت سے کیا گیا عمل تھا، مگر ردعمل میں جس درندگی کا مظاہرہ کیا گیا، وہ پورے معاشرے کے لیے ایک بھیانک پیغام ہے۔

طالب علم کے والد اور بھائی نے خاندانی وقار کے نام پر، جذباتی برانگیختگی کے زیر اثر، مولانا عبیداللہ کو چھریوں کے وار سے شہید کر دیا۔ گویا علم، حلم، اور عزتِ استاد جیسے مقدس رشتوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ یہ سانحہ صرف ایک استاد کے قتل کی کہانی نہیں، بلکہ یہ پورے معاشرے کی اخلاقی، تعلیمی اور روحانی زوال کا اعلان ہے۔

آج ہمیں رک کر سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کو استاد کے بارے میں کیا سکھا رہے ہیں؟ کیا ہم ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا رہے ہیں کہ استاد بھی ہماری تربیت کا اہم ستون ہے، جس کا ادب و احترام واجب ہے؟ یا ہم ان کے دلوں میں صرف دنیاوی حقوق اور انا کی پرورش کر رہے ہیں؟

استاد وہ شخصیت ہے جو اندھیروں میں چراغ جلاتی ہے، جو نبیوں کی میراث علم کو سنبھالے کھڑا ہے، جو اپنی ذات کو مٹا کر دوسروں کو روشن کرتا ہے۔ دینی مدارس میں پڑھانے والے علماء تو خاص طور پر وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جنہوں نے دین کی حفاظت، فروغ اور تشریح کو اپنا مقصدِ حیات بنا رکھا ہے۔ مولانا عبیداللہ بھی انہی چراغوں میں سے ایک چراغ تھے، جو علم و اصلاح کا پیغام لے کر ایک نسل تیار کرنے میں مصروف تھے۔

لیکن افسوس! آج وہ استاد جنہیں ماضی میں روحانی باپ کہا جاتا تھا، جن کے جوتے اٹھانا باعثِ برکت سمجھا جاتا تھا، ان پر ہاتھ اٹھانا، بلکہ انہیں قتل کر دینا، اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ یہ خطرناک رجحان نہ صرف مدارس بلکہ اسکولوں اور کالجوں میں بھی اساتذہ کے اعتماد کو مجروح کر رہا ہے۔ اساتذہ اب ڈر اور خوف کے سائے میں پڑھا رہے ہیں۔

اس لیے وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ہم معاشرے میں استاد کے مقام کو دوبارہ بحال کریں۔ ہمیں اپنے گھروں میں، مساجد میں، اسکولوں میں، اور سوشل میڈیا پر یہ شعور پھیلانا ہوگا کہ استاد صرف علم دینے والا نہیں، وہ روح کی تربیت کرنے والا، کردار سازی کا معمار اور معاشرے کا سب سے قیمتی فرد ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم مولانا عبیداللہ شہید جیسے علمائے کرام کی دینی خدمات پر فخر کریں، ان کی محنتوں کو سلام پیش کریں، اور ان کے خونِ ناحق کو یاد رکھ کر معاشرے میں وہ تبدیلی لائیں جو آئندہ کسی استاد پر ہاتھ اٹھانے کا خیال بھی کسی کو نہ آنے دے۔

یہ وقت صرف مذمت کرنے کا نہیں، بلکہ اصلاح کا ہے۔ ہمیں قانون کے ساتھ ساتھ معاشرتی شعور کی جنگ بھی لڑنی ہے۔ اساتذہ کی عزت پر اٹھنے والا ہر ہاتھ صرف ایک فرد پر نہیں بلکہ پوری قوم کے مستقبل پر حملہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں