Father is the pillar of the home/Written by Nimra Amin/Lahore 0

باپ گھر کا ستون/تحریر/نمرہ امین/لاہور

ایک باپ گھر کا وہ ستون ہے جس کی دیواریں جتنی بھی کمزور ہوں لیکن وہ گھر کبھی نہیں ٹوٹ کے بکھرتا ہے۔ اس گھر کے بند دریچوں پر بھی کبھی کسی کی نگاہ نہیں پڑتی ہے۔ اس گھر کی آب و حیا ہی باپ کی خوشبو سے معطر ہو کر مہکنے لگتی ہے۔ وہ گھر جنت کا گہوارہ ہوتا ہے جہاں ماں باپ کی چہل قدمی، ان کی چاشنی سے میٹھی باتیں، ان کی پر کیف خوبصورت مسکراہٹ جس کی مدہم آواز کی گونج پورے گھر کو اپنے اسیر میں رکھتی ہے۔ اس گھر کی چار دیواری میں ایک پر سکون ماحول اور رونق نے چار چاند لگائے ہوتے ہیں۔ وہ گھر خوش نصیبوں میں شمار ہوتا ہے جہاں والدین حیات ہوتے ہیں۔

باپ کا سایہ جب چھن جاتا ہے تو اس گھر کی دیواروں میں دڑاڑیں آ جاتی ہیں۔
اولاد پر سے ایک مضبوط ستون، ایک مضبوط آسرا ہمیشہ کے لیے جدا ہو جاتا ہے۔ اولاد ہمیشہ کے لیے یتیم ہو جاتی ہے۔

باپ کے نام سے ہی اولاد کی پہچان ہوتی ہے، اس کی عزت، قدر کی جاتی ہے۔ اس کی قابلیت کو سراہا جاتا ہے اور جب باپ کا سایہ ہی اٹھ جائے تب وہی اولاد سفر زیست میں تنہا رہ جاتی ہے۔ اس کے مقدر میں در بدر کی ٹھوکریں لکھی جاتی ہیں۔

باپ ایک ایسا شجر ہے جس کے سایے نے اپنے گھر اور اولاد کو بارش، آندھی،طوفان، گرمی کی تپش، ٹھٹھرتی سردی، غم، دکھ، درد، پریشانی سے محفوظ رکھا ہوتا ہے۔ وہ اپنے پر پھیلائے ہمیشہ اپنے گھر اور اولاد کو اس میں مقید رکھتا ہے تاکہ زمانے کی حسد بھری بری نگاہوں سے ان کی حفاظت کر سکے۔
باپ کی با رونق اور رعب دار آواز ہی گھر میں خوشیاں اور پر سکون ماحول بنا دیتی ہے۔ ان کے پڑے ہوئے جوتے ہی گھر کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

باپ کے ہوتے ہوئے کسی اولاد کی نصیب میں کاش لفظ نہیں ہوتا ہے۔ باپ کے رخصت ہوتے ہی اولاد کی زیست تنہائی میں محرومیاں اور کاش لکھا جاتا ہے۔ کٹھن حالات زیست اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس کی زیست کی تمام تر خوشیاں سمندر کی لہروں کی طرح گزر جاتی ہے۔ وہ ہر موڑ پر ایک تنہا مسافر کی طرح اپنی زیست کے گزرتے دنوں کو خاموشی سے گزرتے دیکھ رہا ہوتا ہے۔
اس کے غم، دکھ، درد، تکلیف سے کوئی بھی واقف نہیں ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی اس کی کیفیت کو نہیں سمجھ سکتا ہے۔ اس کے اندر ایسا طوفان برپا ہوتا ہے جو اس کی برداشت کی حد کو اشکوں کی صورت میں بہا کر ختم کرتا ہے۔

اس کی چشم نور سے بہتے وہ انمول موتی جس کو ایک باپ نے ساری عمر سنبھال کر رکھا۔ اب سمندر کے کھارے پانی کی طرح بہتے ہوئے سب راستوں کو عبور کر گیا ہے۔
والدین کے بغیر گھر سنسان، ویران، بیابان ایک قبرستان کی مانند ہو جاتا ہے۔

اللہ پاک میرے والدین کی مغفرت و بخشش کرے۔ ان کے درجات بلند کرے، ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ ان کی منزلیں آسان کرے اور ہمیں اپنے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنائے ۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں